تمام مسلمانوں کو فتح مکہ مبارک ہو !!

نیلم

محفلین
فتحِ مکہ ۔۔۔۔۔مثالی اورتاریخ ساز واقعہ
اس مبارک مہینے میں فتح مکہ ایک عظیم فتح کی صورت میں معرض وجود میں آئی جس کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاۙ۔۱ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ يُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَ يَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًاۙ۲
"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! (یقیناً ) ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی(1) تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے در گزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے (2)"
اسلام کی عظیم الشان انقلابی تاریخ کے اوراق میں واقعہ فتح مکہ کو اس اعتبار سے انفرادیت حاصل ہے کہ یہ تاریخ عالم کا پہلا واقعہ ہے جب ایک بستی کے اندر دس ہزار مجاہد، مہاجر مکی حضرت رسول مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں بھر پور عسکری تیاری کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور بغیر کسی کشت وخون ، ماردھاڑ ، لوٹ کھسوٹ اور تشدد کے فتح ومسرت کا جھنڈا گاڑ کر عفو ودرگذر اور معافی کا اعلانِ عام ہوتاہے ۔فوجی حکمت عملی کے تحت سالارِ افواج نے چار جماعتوں میں اپنی فوج کو تقسیم کرنے کی ہدایت فرمائی تھی اورمکہ کو چار اطراف سے گھیرے میں لینے کا منصوبہ تشکیل دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس فوجی دستے کے پیچھے پیچھے چلتے رہے جس کی علمبرداری حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ ابن الجراج کر رہے تھے۔اطاعت ، جذبۂ عبودیت اور سرفروشی کے جملہ عناصر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اس شہر کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں سے رات کی تنہائی وتاریکی میں آٹھ سال پہلے کفارِ مکہ نے ہجرت پر مجبور کردیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے مولدومسکن کی وسعتیں تنگ کردی گئی تھیں، ہرطرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں ۔ ان روح فرساں تکالیف کی روداد پڑھ کر انسان ورطۂ حیرت میں پڑتاہے کہ کیا یہ اس عظیم انسان کا مل صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روا رکھا گیاتھا جو سراپا رحمت ومودّت تھے لیکن پھر تاریخ اس بات کے شواہد پیش کرتی ہے کہ حق وصداقت کی با ت کرنے والوں سے انسانی معاشرے کا ہمیشہ یہی روّیہ رہا ہے
حق پرستوں سے زمانے کی دغا آج بھی ہے
تیرے بندوں پہ ستم میرے خدا آج بھی ہے
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز سرِ مقدس پر سیاہ عمامہ باندھ رکھا تھا۔(اس دستارِرحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں جہاں قربان ہوں) جوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے حدود میں تشریف فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں کعبۃ اللہ کی جانب اُٹھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے ۔ سرِ نازنین کو اس قدر جھکادیا کہ عمامہ شریف کی سلوٹیں ڈھیلی پڑ گئیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس عسکری جماعت کے ساتھ چل رہے تھے اس میں ایک شاعر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو نعتیہ اشعار پڑھ رہے تھے ۔
’’آج مکہ پر ستارۂ صبح طلوع ہوا۔ آج ہمارے درمیان اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو خدا کی کتاب کی آیات تلاوت کررہاہے ۔ آج ہم ان سے بدلہ لیں گے جنہوں نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جلاوطنی پر مجبور کردیاتھا‘‘
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں آج اہلِ مکہ کو امن وآزادی کی بشارت ملنے والی ہے ۔
کفارانِ قریش دس ہزار قدسی صفات صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور ان کے دائیں بائیں بے شمار ملائکہ (جوآنکھوں کودکھائی نہیں دیتے تھے) سے خوفزدہ ہوچکے تھے ،مزاحمت اور مقابلے کے لئے سامنے نہیں آئے ، جو مقابلہ آرائی عربوں کے مزاج کی خصوصیت تھی ۔ کفارانِ مکہ کی خاموشی ، ندامت ،انکساری اور گھبراہٹ کو بھانپ کر سالارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانۂ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکریہ الفاظ بیان کئے:
’’اے گروہِ قریش! اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور آبا واجداد پر فخر وغرور زائل کردیا ۔ سب انسان آدم سے پیدا ہوئے اور آدم مٹی سے ‘‘۔ اس کے بعد قرآن حکیم کی سورہ الحجرات کی وہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے گروہ اور قبیلے بنائے ،تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکو ۔ بے شک تم میں سب سے بہتر اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ۔ یقیناً اللہ خبیر وعلیم ہے ‘‘۔
اس کے فوراً بعد فرمایا ! ’’ اے قریش ! میں تمہارے بارے میں جو کچھ کرنے والا ہوں اس کے بارے میں تم کیا رائے رکھتے ہو ‘‘۔ سب نے کہا ’’بہتر رائے رکھتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریف بھائی ہیں ۔شریف بھائی کے بیٹے ہیں‘‘۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جائو اب تم آزاد ہو‘‘ ۔ یہی وہی جملہ تھا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا جنہوں نے ایک مرحلے پر جناب یوسف علیہ السلام کو اندھیرے کنوئیں میں ڈال دیا تھا اور اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا تھا کہ یوسف علیہ السلامکو بھیڑیا کھاگیا۔ اللہ نے اپنے پیارے کی مددکی ،قافلہ گزرا۔ یوسف علیہ السلام کو کنوئیں سے نکالا گیا ۔ مصر کے بازار میں فروخت ہوا ۔ سلطنتِ مصر کا ایک وزیر وامیر ہوگئے جنہوں نے ایک زمانے میں انہیں مٹانے کی کوشش کی تھی ان سے وہ بدلہ لے سکتاتھا لیکن ایسا نہیں ہوا ،انہیں بلا تامل معاف کردیا ، آ زادی کا پروانہ ان کے ہاتھوں میں تھمادیا ۔
فتحِ مکہ کے اس تاریخی اور مثالی واقعے کو اقبال مرحوم نے فقط دوشعروں میں سمیٹا ہے
آنکہ بر اَعداء درِ رحمت کشاد
مکہ را پیغام لا تشریب داد
وقتِ ہیجا تیغ او آہن گداز
دیدۂ او اشکبار اندر نماز
ترجمہ : جس نے دشمنوں پر رحمت کا دروازہ کھولا ۔ مکہ کو ’’کوئی غم نہیں‘‘ کا پُرسکون پیغام سنایا۔(یعنی عام معافی کا اعلان کردیا)۔ میدانِ جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لوہے کو پگھلاتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں نماز میں آنسو بہارہی ہیں ۔
فتح مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں پر ایسا ہمہ گیر اثرات مرتب کیا کہ وہی خون کے پیاسے ،دین کے بدترین دشمن اور جنگ وقتال میں یقین رکھنے والے ایسے پاکباز اور خداترس بن گئے کہ چشم عالم نے آج تک ایسی انسانی شخصیات کے پیکر نہیں دیکھے ۔انسان کی فطرت میں انتقام اور قصاص کا عنصر موجود ہے اور یہ انفرادی واجتماعی دونوں سطحوں پر کارفرما رہتاہے لیکن فاتح مکہ نے اپنی علمی اور نبوی حیاتِ طیبہ میں دنیا پر یہ بات واضح کردی کہ انہیں جوڑنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے کہ نہ کہ توڑنے کے لئے ۔ فرمانروا اور فاتحین کی تاریخ بتاتی ہے کہ کس طرح فوجی پیش رفت کے موقعوں پر قتل عام کیا گیا ، درخت کاٹے گئے اور بستیاں نذرِ آتش کی گئیں۔ اسلام کے سپہ سالارؐ کا اسلوب ہی مختلف ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معافی کا اعلان فرمایا تو اپنے انتہائی درجہ کے دشمن ابوسفیان کے بارے میں فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگا اس کو بھی امان حاصل ہے ۔فتحِ مکہ کے بعد شعرائے عرب نے اس واقعہ کو منظوم انداز میں پیش کیا ہے ۔ ان اشعار کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج معافی ، فراخدلی اور انسان دوستی ہے ۔

آج 16 رمضان کو
تمام مسلمانوں کو فتح مکہ مبارک ہو !!
 
آخری تدوین:
Top