تمام رنگ وہی ہیں ترے بگڑ کر بھی

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تمام رنگ وہی ہیں ترے بگڑ کر بھی
اے میرے شہر تُو اجڑا نہیں اجڑ کر بھی

ہیں آندھیاں ہی مقدر تو پھر دعا مانگو
شجر زمین پر اپنی رہیں اُکھڑ کر بھی

ہم ایسی خاک ہیں اس شہر ِزرگری میں جسے
بدل نہ پائے گا پارس کوئی رگڑ کر بھی

ملا ہے اب تو مسلسل ہی روئے جاتا ہے
وہ ایک شخص جو ہنستا رہا بچھڑ کر بھی

عجب مقام ہے یہ ، وقت میں نہیں برکت
پہاڑ جیسا لگے دن مجھے سکڑ کر بھی

دیا گیا یہ تاثر کہ ہم بھی ہیں آزاد
ہمیں اُڑایا گیا جال میں جکڑ کر بھی

یہ کون لوگ ترے ساتھ چل رہے ہیں ظہیر
اکیلے لگتے ہو ہر ہاتھ کو پکڑ کر بھی

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگست ۲۰۰۱
سید عاطف علی فاتح کاشف اختر محمد تابش صدیقی
 
آخری تدوین:

امین یوسف

محفلین
انتہائی معیاری غزل، دلکش قافیہ اور خوبصورت ردیف سے آراستہ غزل سخن پختہ و پرورد و تہدار کی تعریف میں آتی ہے، اللہم زد فزد۔
 
Top