واصف تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا

نیرنگ خیال

لائبریرین
تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا​
طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا​
شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا​
آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا​
جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا​
سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کسی کے پاؤں تلے راستہ نہ تھا​
ذروں میں آفتاب نمایا تھے جن دنوں
واصف وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا​
 

بھلکڑ

لائبریرین
آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا​
خوبصورت شئیرنگ جناب​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت زبردست کلام کا انتخاب ہے نیرنگ خیال
آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا
شکریہ اپیا :)

آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے​
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا​
خوبصورت شئیرنگ جناب​
شکریہ جناب :)

واہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔! بہت خوبصورت غزل ہے۔

حسنِ انتخاب کی داد قبول کیجے محترم۔۔۔ ۔۔!
بہت بہت شکریہ احمد بھائی :)
 
Top