پروین شاکر تقیہ ۔ پروین شاکر

تقیّہ

سو اب یہ شرط حیات ٹہری
کہ شہر کے سب نجیب افراد
اپنے اپنےلہو کی حرمت سے منحرف ہوکے جینا سیکھیں،
وہ سب عقیدے کہ ان گھرانوں میں
ان کی آنکھوں کی رنگتوں کی طرح تسلسل سے چل رہے تھے
سنا ہے باطل قرار پائے،
وہ سب وفاداریاں کہ جن پہ لہو کے وعدے حلف ہوئے تھے
وہ آج سے مصلحت کی گھڑیاں شمار ہوں گی
بدن کی وابستگی کا کیا ذکر
روح کے عہدنامے تک فسخ مانے جائیں!
خموشی و مصلحت پسندی میں خیریت ہے
مگر مرے شہر منحرف میں
ابھی کچھ ایسے غیور و صادق بقید جاں ہیں
کہ حرفِ انکار جن کی قیمت نہیں بنا ہے
انھیں گرفتار کرنے بھیجے
تو ساتھ میں ایک ایک کا شجرہء نسب بھی روانہ کرنا
اور ان کے ہمراہ سرد پتھّر میں چْننے دینا
کہ آج سے جب،
ہزارہا سال بعد ہم بھی
کسی زمانے کے ٹیکسلا یا ہڑپّہ بن کر تلاشے جائیں
تو اس زمانے کے لوگ
ہم کو
کہیں بہت کم نسب نہ سمجھیں!

پروین شاکر، صد برگ
 
Top