داغ تقلید سے زاہد کی حاصل ہمیں کیا ہوتا ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
تقلید سے زاہد کی حاصل ہمیں کیا ہوتا
انساں نہ ملک بنتا، بندہ نہ خدا ہوتا

توبہ ہے حسینوں کو گر پاسِ وفا ہوتا
کیا جانیے کیا کرتے، کیا جانیے کیا ہوتا

تم لطف اگر کرتے تو حال زمانے کا
ایسا ہی ہوا ہوتا، ایسا نہ ہوا ہوتا

ساقی تری محفل میں چرچا ہی نہیں مے کا
اس سے تو یہ بہتر تھا کچھ ذکرِ خدا ہوتا

دل نے مجھے تڑپایا آنکھوں نے کیا رسوا
اپنوں سے ہوا یہ کچھ بیگانوں سے کیا ہوتا

غیروں کی شکایت پر، فرقت کی حکایت پر
گر تم نہ خفا ہوتے تو کون خفا ہوتا

ارمانِ ہم آغوشی سُن سن کے ڈھٹائی سے
اس کہنے کے میں صدقے، پھر کہیے تو کیا ہوتا

ہر درد کی اے قاتل! لذت مجھے جب ملتی
سر، شانہ، گلا، سینہ، تھم تھم کے جدا ہوتا

ناصح بھی خوشامد سے میری ہی سی کہتا ہے
نادان نہ تھا کیوں وہ سمجھا کے برا ہوتا

تھا غیر بھی ساتھ ان کے کترا کے گئے مجھ سے
یہ خیر ہوئی ورنہ جھگڑا ہی ہوا ہوتا

وہ محفلِ دشمن میں جب مجھ کو طلب کرتے
وہ وقت مزے کاتھا اُس وقت مزا ہوتا

کیا مجھ سے ہی تنہا ہو تعریف تری قاتل
خنجر بھی زباں بنتا جب شکر ادا ہوتا

ہم جان کے نامنصف، ہیں داد طلب تجھ سے
وہ فیصلہ ہی کیا تھا جو روزِ جزا ہوتا

ہم کو تو عدم میں بھی نیند آئی نہ محشر تک
کچھ آنکھ بھی لگ جاتی گر دل نہ لگا ہوتا

اچھا ہے نہیں آئے وہ دھوپ کی گرمی میں
قامت تو قیامت تھا سایہ بھی بلا ہوتا

عاشق کا ذرا سا دل تسکین ہی کیا اس کی
جھوٹا ہو کہ سچا ہو وعدہ تو کیا ہوتا

محفل میں سنایا تھا افسانۂ غم میں نے
الزام یہ رکھا ہے خلوت میں کہا ہوتا

فریاد و فغاں سے تم اے داغؔ برے ٹھہرے
کچھ بھی نہ کیا ہوتا کچھ بھی نہ ہوا ہوتا

(مرزا داغ دہلوی)
 
Top