تفہیم القرآن ، تفسیر ماجدی اور سید شیر محمد رحمہ اللہ

الف نظامی

لائبریرین
تفہیم القرآن ، تفسیر ماجدی اور سید شیر محمد رحمہ اللّٰہ
(سجاد خالد)​
پاکستان بننے سے پہلے مولانا مودودی رحمہ اللہ ابھی جوان تھے اور فیروزپور میں میرے دادا جان شیخ عبد الرحیم علیگ ایڈووکیٹ کے ہاں مہمان تھے۔ تعارفی نشست میں دادا جان کے ایک دوست سید شیر محمد صاحب (جو انڈین سول سروسز میں تھے اور پاکستان بننے کے بعد مرکزی ڈاکخانے کے سربراہ مقرر ہوئے تھے) نے مودودی صاحب سے درخواست کی کہ قرآن کے معاصر اردو ترجموں کی زبان جدید اردو سے کم مطابقت رکھتی ہے اور انگریزی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل مسلمانوں کی قرآن فہمی کے لیے ایک نئے ترجمے کی اشد ضرورت ہے۔ مولانا نے اسی نشست میں اس پراجیکٹ کا ارادہ کیا اور سید صاحب سے وعدہ کیا۔ جب تفہیم القرآن کی پہلی جلد شائع ہوئی تو یہ دونوں افراد پاکستان میں موجود تھے۔ مولانا نے ہر جلد چھپنے کے بعد سب سے پہلے سید صاحب کو بھیجی۔
شیر محمد سید صاحب نے تفہیم القرآن پر ایک مفصل ریویو لکھ کر مولانا مودودی کو بھیجا۔ جس پر مولانا نے انہیں شکریہ کا خط روانہ کیا اور لکھا کہ آپ نے جس باریک بینی سے اس تفسیر میں موجود محاسن اور خامیوں کی نشاندہی کی ہے اس کے بعد میری خواہش ہے کہ کچھ حصوں کو دوبارہ تحریر کروں لیکن اب صحت اجازت نہیں دیتی۔ میری خواہش ہے کہ آپ کی یہ تحریر تفہیم القرآن کے ساتھ ضمیمے کے طور پر شائع ہو جائے تاکہ قاری ضروری مقامات پر مطلوب اصلاح سے آگاہ ہو جائے۔
مولانا کی زندگی میں یہ ضمیمہ نہیں چھپ سکا۔ بعد میں سید صاحب نے مولانا کا خط جماعت کے ذمہ داران کو دکھایا اور ضمیمے کے لیے تحریر بھی پیش کی لیکن اس پر وہ لوگ راضی نہ ہوئے۔ سید صاحب کو اس کا بہت رنج تھا۔
مولانا عبد الماجد دریابادی کی تفسیر ماجدی کو بھی سید صاحب نے ریویو کیا جس پر مولانا ماجدی نے شکریہ ادا کیا اور بہت سے مقامات کی اصلاح کی۔ سید صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ساڑھے چار ہزار اغلاط کی نشاندہی کی تھی جن میں سے اڑھائی ہزار کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کاتب مولانا دریابادی رحمہ اللّٰہ کی شکستہ تحریر ٹھیک سے پڑھ نہیں سکے تھے اور طبع اول عجلت میں شائع ہو گئی تھی۔
یہ باتیں سید شیر محمد صاحب سے میں نے براہِ راست سُنیں اور آج خیال آیا کہ کچھ کچھ لکھنا شروع کروں۔ سید صاحب اور میرے درمیان کچھ خط و کتابت بھی ہوئی تھی جو اب میرے پاس محفوظ نہیں۔ دس بارہ برس پہلے ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ڈاکٹرز ہسپتال کے شریک بانی سید غضنفر شاہ شیر محمد صاحب کے داماد ہیں اور آخری چند برس آپ انہی کے گھر میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ ضعف انتہاء درجے کو پہنچا تو اپنی کرسی قبلہ رخ رکھوا لی تھی تاکہ نماز کی ادائیگی میں دشواری نہ ہو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سجاد خالد لکھتے ہیں:
لاہور میں مسجد مائی لاڈو کے امام مولوی مختار دبنگ آدمی تھے. ایوب خان کے زمانے میں فوج میں رہے تھے اور اپنی تیز زبان کی وجہ سے شاید سزا بھی پائی تھی،مسجد سے کوئی معاوضہ نہ لیتے اور موٹر سائیکل کے سپیئر پارٹس کی دکان کرتے تھے. فرقہ واریت کے شدید مخالف تھے. تقریر اردو میں شروع فرماتے،فرقوں کی بات شروع ہوتی تو آپ سے آپ پنجابی پر سوئچ کر جاتے. امام کے خطبے کے لئے پڑا ڈنڈا اٹھا کر پوچھتے بولو اب تم میں سے کون ہے بریلوی،کون ہے دیوبندی،کون ہے اہلِ حدیث،لوگ سہم جاتے اور ان کی بات سے متاثر نظر آتے.
ایک دن میں نے ان سے پوچھا.. مولوی صاحب.. قرآن کا کون سا ترجمہ اچھا ہے..
آہستہ سے بولے..
یار ہے تو مودودی صاحب کا ترجمہ سب سے اچھا لیکن میں یہاں یہ بات کہہ نہیں سکتا. لوگوں کو فتح محمد جالندھری کا کہہ دیتا ہوں تو کچھ نہیں کہتے.
 
Top