وہاب اعجاز خان
محفلین
تعلیم بالغاں(خواجہ معین الدین)(فنی فکری جائزہ
کردار نگاری:۔
تعلیم بالغاں کے کرداروں میں مولوی صاحب جو کہ مدرسے کے استاد ہیں، مولوی صاحب کی بیوی اور شاگرد قصاب ، حجام ، وکٹوریہ والا خان صاحب، دودھ والا ، دھوبی اور ملاباری اہم کردار ہیں۔ اس کے علاوہ اتحاد ، تنظیم اور یقین محکم لکھے ہوئے گھڑے بھی اس ڈرامے کے کردار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ تین گھڑوں میں سے اتحاد تنظیم اور والے دوگھڑوں کا ماشاءاللہ خاتمہ بالخیر ہو چکا ہے۔ ڈرامہ نگار نے کردار نگاری کرتے وقت فنی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ ہر کردار اپنی اپنی نفسیات کے مطابق حرکات و سکنات کرتے ہوئے ڈرامے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ان کرداروں میں سے مدرسے کے استاد اور ان کے شاگردقصاب کا کردار مرکزی کردار کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ مولوی صاحب کا کردار ایسا کردار ہے جو شروع سے لیکر آخر تک مصروف عمل رہتا ہے۔ تمام شاگردوں کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھنا اور ان سے نمٹنا مولوی صاحب کے کردار کا خاصہ ہے۔ خاص طور پر ان کا ڈنڈے والا ہاتھ انتہائی مصروف رہتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں اور زبان کو بڑی چابکدستی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ قصاب جو کہ مدرسے کا بالغ طالب علم ہے۔ ایک ہوشیار شاگرد کی طرح تمام درپیش آنے والے حالات و واقعات کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ مولوی صاحب کے تمام ڈنڈے جوں تو کر کے سہہ جاتا ہے۔ کلاس کا مانیٹر ہونے کی وجہ سے ڈرامے میں قصاب کا کردار مولوی صاحب کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
مکالمہ نگاری:۔
کردار نگار ی کے ساتھ ساتھ مکالمہ نگاری بھی توجہ طلب فن ہے۔ ڈرامہ تعلیم بالغاں اس لحاظ سے اور بھی قابل غور ہے کہ سارے کا سار ا ڈرامہ سوال جواب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈرامے کا اس طرح سے پیش کرنا مشکل ترین فن ہے لیکن بحر حال ڈرامہ نگار نے اس مشکل فنی مرحلے کو بھی بڑی کامیابی کے ساتھ نبھایا ہے اور کرداروں کے سوال جواب کا ایسا مسلسل سلسلہ چھیڑا ہے کہ پورے کا پورا ڈارمہ مکالماتی انداز میں پیش کر دیا ہے۔ اسٹیج ڈرامہ کہنے کے ساتھ ساتھ ہم اس ڈرامے کو مکالماتی ڈرامہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مختصر مختصر سوال و جواب کی صورت میں بڑی فنکاری کے ساتھ ڈرامہ نگار نے بات کو آگے کی طرف بڑھایا ہے۔ یہ مکالمے مختصر ترین ہیں ۔ ان مکالموں میں لمبی لمبی تقریریں نہیں کہ پڑھنے والا دیکھ کر اکتاہٹ کا شکار ہو جائے بلکہ اختصار ہی میں ہر کردار اپنا مطلب پیش کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مکالمہ نگاری کرتے وقت ڈرامہ نگار نے کرداروں کی ذہنی سطح کا بھی خیال رکھا ہے۔ ہر کردار اپنی حیثیت کے مطابق بات کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں زیادہ تر مکالمے فطری بلکہ انتہائی فطری ہیں مکالموں کا فطری ہونا ہی فنی ضرورت ہے اس میں شک نہیں کہ دوسرے شاگردوں کے برخلاف حجام کچھ زیادہ ہی چالاکیاں کرتا ہے۔ اور مولوی صاحب کو اشارتاً ٹوکتا رہتا ہے۔ لیکن یہ بھی اس کی فطرت ہے جسے ڈرامہ نگارنے ظاہر کر دیا ہے۔
پلاٹ و اسلوب:۔
اس ڈرامے کا پلاٹ ہوتے ہوئے بھی محسوس نہیں ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ڈرامہ کلی طور پر مکالموں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔ جہاں تک اسلوب کاتعلق ہے تو یہ ڈراما سادہ و سلیس زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے یہ ڈرامہ دلچسپی اور دلکشی کی خصوصیت بھی رکھتا ہے۔ ڈرامے کی عبارت کو طنزیہ اور مزاحیہ تحریر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کہیں سے بھی اٹھا کر دیکھ لیں ڈرامے کی تحریر میں یہ دونوں عناصر آپ کو ملیں گے۔ ڈرامہ نگار نے کہیں کہیں لفظی ہیر پھیر سے طنز و مزاح پیدا کیا ہے۔ مثلاً لکڑیوں کو لڑکیاں کہنا اور کوائف کو طوائف کہنا اس کی مثالیں ہیں۔
تجسّس و جستجو:۔
کسی بھی کہانی کے لئے تجسّس و جستجو کے عناصر بہت ضروری ہوتے ہیں۔ یہی و ہ عناصر ہیں جو کہانی میں دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اگر ہم تجسّس و جستجو کے ادبی جواہر اس ڈرامے میں ڈھونڈتے ہیں تو ہمیں مایوسی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ڈرامے کی فضاءمیں ایسے حالات نہیں پائے جاتے کہ ہم اپنے آپ سے سوالات کر سکیں۔ یہ نہیں سوچ سکتے کہ اب کیا ہوگا؟ اور اگر کسی ایک آدھ مقام پر ہمارا تجسّس ابھرتا بھی ہے تو ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ یعنی ہم جانتے ہیں کہ اب مولوی صاحب قصاب کو ڈنڈا ماریں گے ۔ ڈنڈے کے بے دریغ استعمال نے تجسّس و جستجو کو نقصان پہنچایا ہے مولوی صاحب نے اس ڈنڈے کا اتنا زیادہ استعمال کیا ہے کہ ہم اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بات بات پر ڈنڈا اٹھا لینا اور شاگردوں کی پٹائی کرنا تجسّس و جستجو پر حاوی ہو گیا ہے۔ پورے ڈرامے میں زیادہ سے زیادہ اگر تین چار دفعہ ڈنڈے کا استعمال کےا جاتا تو بہت تھا۔ لیکن ہر با ت پر ڈنڈے کے استعمال نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ اگلے ہی لمحے پھر ڈنڈا استعمال ہوگا اور واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ ڈرامہ فنی اصولوں کے مطابق ہے او ر جہاں تک فنی کمزوریوں کا تعلق ہے تو تھوڑی بہت کمزوریاں تو انسان کے ہر کام میں ہوتی ہیں۔
فکری جائزہ:۔
فکری طور پر ڈرامہ نگار نے طنزیہ اور مزاحیہ انداز اختیار کرتے ہوئے بہت سے قومی اور ملی مسائل اور برائیوں کا ذکر چھیڑا ہے۔ طنز و مزاح کا مطلب محض ہنسنا ہنسانا نہیں ہوتا بلکہ مزاحیہ و طنزیہ نشتروں کے ذریعے معاشرے کے پھوڑوں پر نشتر زنی کرتے ہوئے فاسد مادوں کا انخلاءکرنے کی صور ت میں قوم و ملت کا علاج کیا جاتا ہے۔ تاکہ صحت مند معاشرہ معرض وجود میں آسکے۔ چنانچہ ہم اسی مقصد کے تحت ڈرامہ نگار نے تعلیم بالغاں میں طنزیہ و مزاح کے نشتر استعمال کرتے ہوئے ہماری بہت سی بیماریوں اور گمراہیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے ڈرامہ نگار یہ تلخ حقیقت ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے قائداعظم کے بنائے ہوئے پاکستان میں اتحاد اور تنظیم کا ستیا ناس کردیا۔ جس وقت یہ ڈرامہ لکھا گیا تھا اس وقت یقین محکم البتہ سالم تھا۔ لیکن ڈرامہ لکھے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ ڈرامہ نگار نے اشارہ کر دیا ہے کہ تیسرے اصول کو ختم کرنے کے لئے منفی رویہ سرگرم عمل ہے۔ چنانچہ یہ افسوس ناک حقیقت ثابت کہ ہم نے یقین محکم کو بھی اپنی علمی زندگی میں ختم کردیا ہے اور جب یہ تینوں عناصر ختم ہو چکے ہیں تو اب اس سر زمیں کی باری ہے جس کے لئے یہ تین سنہرے اصول وضع کئے گئے تھے۔ڈرامہ نگار نے یہ فکری پیغام دیا ہے کہ اگر ہم اب بھی ہوش کے ناخن لیں تو اپنے مستقبل اور وطن کو بچا سکتے ہیں۔ اتحاد یقین محکم کو اپنی عملی زندگی میں دوبارہ زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لئے کہ بےشک
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
لیکن افسوس ہماری سادگی پر کہ لڑتے ہیں اور اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ حکمرانوں نے درحقیقت مندرجہ بالا تینوں عناصر کا خاتمہ کیا ہے۔ اور عوام اتنے سادہ ہیں کہ اب بھی اپنے آ پ کو طاقتور سمجھ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جھوٹے اور لٹیر ے سےاستدانوں کی گردنیں توڑ دی جائیں۔ اس لئے کہ انہوں نے مختلف ہتھکنڈوں اتحاد اور تنظیم اور یقین محکم اور وطن عزیز کی گردن توڑی ہے۔
ڈرامہ نگار نے مختلف مسائل کا ذکر چھیڑتے ہوئے تعلیم اور محکمہ تعلیم کی زبوں حالی کا بھی رونا رویا ہے۔ ہم لوگ وقت پر تعلیم حاصل نہیں کرتے جب تعلیم حاصل کرنے کا وقت گزر جاتا ہے تو پچھتاوے کی حالت میں ہاتھ ملتے رہتے ہیں اور پھر تعلیم بالغاں کا سلسلہ شروع کرنا پڑتا ہے۔ جو کہ مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا۔ قصاب کا باپ بھی مولوی صاحب کا شاگرد رہ چکا ہوتا ہے اس طرح دھوبی ہے کہ عمر کے بوجھ سے کمر جھک چکی ہے لیکن مولوی صاحب سے اس نے جو پڑھا کپڑوں کی طرح اسے دھو ڈالا۔ ڈرامے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت تعلیم اور محکمہ تعلیم پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتی۔ استاد ہیں کہ مدرسے کے مولوی صاحب کی طرح وکٹوریہ والا جیسے شاگردوں سے ادھار بیس روپے لے کر گزر اوقات کرتے ہیں۔ اس لئے کہ محکمہ تعلیم انہیں تنخواہ نہیں دیتی ۔ اس طرح غربت اور کسم پرسی کے عالم میں شاگردوں سے ادھار کھانے والے استادوں کی عزت نفس مجروح ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ ان سے دبے دبے رہتے ہیں۔ یہاں پر ڈرامہ نگار نے یہ حقیقت بھی اجاگر کر دی ہے کہ دراصل ساری پاکستانی قوم ادھار کے ٹکڑوں پر پل رہی ہے۔ معمولی استاد کا ادھار لے لینا تو کوئی بڑی بات نہیں ہماری حکومت اور صاحب اقتدار لوگ بھی باہر سے بڑی بڑی رقوم لے کر ہڑپ کر رہے ہیں جس کا سارا بوجھ غریب عوام کی گردن پر ڈالا جا رہا ہے۔ تاکہ اتحاد ، تنظیم ، یقین محکم اور پاکستا ن کی طرح غریب عوام کی گردن بھی توڑ دی جائے۔ اس محکمہ کے علمی کمالات و جمالات کا یہ مقام اعلیٰ ہے کہ وزیر تعلیم بھی ”زیر تعلیم“ ہے۔ محکمہ تعلیم کے ان پڑھ اور جاہل وزیر نور علم پھیلانے میں جاہلانہ کردار ادا کرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ تلخ حقیقت لمحہ فکریہ ہے۔ڈرامہ نگار کا مقصد یہی ہے کہ اٹھو اور ایسے جاہل زیر تعلیم وزیروں سے جان چھڑالو۔ ان وزیروں کی علمی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ اپنا دستخط بھی نہیں کر سکتے اور دوسروں کی لکھی ہوئی تقریر پڑھنے سے بھی قاصر ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں تعلیم کیا خاک پھیلے گی۔
اسی جہالت لاعلمی اور مادہ پرستی کا یہ ثمرہ ہے کہ ہم اپنے ماضی سے بھی کٹ چکے ہیں ۔ ہمیں اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں سے واقفیت بھی نہیں۔ ہماری یہ حالت ہے کہ اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ محمد بن قاسم نے سترہ سال کی عمر میں کیا کیا تھا تو ہمارے شعور میں جو بات ہوتی ہے اس کے مطابق عرض کرتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے سترہ سال کی عمر میں شادی فرمائی تھی۔ تعلیمی نصاب کا یہ عالم ہے کہ فلمی گیت اور گانوں کوزیادہ وقعت دی جاتی ہے۔ نصاب بنانے والوں کے لاشعور میں نام نہاد جدیدیت کے حوالے سے غزلوں اور سنجیدہ نظموں کی بجائے فلمی گیت ہی ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب اپنے شاگرد(دودھ والا) نے جب غزل پڑھنے کو کہتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ”اس میں تو گجلہا ہی نا“ ۔ کتاب میں صرف فلمی گانے ملتے ہیں۔ آئے دن نصاب کی تبدیلی طلبا و طالبات کو ایک طرف تو غیر یقینی صورتحال سے دو چار کرتی ہے۔ نئی کتابیں دستیاب نہیں ہوتیں اور یا اگر ملتی ہیں تو اپنی ذاتی کمائی بڑھا کر مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے۔ آئے دن نصاب کی تبدیلیاں بھی اتحاد اور تنظیم پر ضرب لگاتی ہیں۔ طلبا کے لئے نئے نصاب میں آسان ترین کتاب منتخب کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں طلبا محنت سے جی چرانے لگتے ہیں اور سستی اور کاہلی ان کے مستقبل کا مقدر بن جاتی ہے۔
ڈرامہ نگار نے اپنے اس ڈرامے میں نظام جمہوریت پر بھی طنز کیا ہے۔ بےشک
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال نے جمہوریت کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ
اس سراب ِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
ڈرامہ نگار نے بھی ایک ناقابل فرموش مثال دی ہے اور جمہوریت کے مضحکہ خیز ہونے کو ثابت کر دکھایا ہے۔ کلاس میں شاگردوں سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ ہمایوں ظہیر الدین بابر کا بیٹا تھا یا باپ، دو شاگرد کہتے ہیں کہ ہماریوں بابر کا بیٹا تھا۔ جبکہ باقی سب کی اکثریت یہ فرماتی ہے کہ ہمایوں بابر کا باپ تھا۔ اب چونکہ ہمایوں کو بابر کا باپ کہنے والوں کی اکثریت ہے اس لئے جمہوریت جیت جاتی ہے۔ یہی جمہوریت ہے کہ بیٹے کواپنے باپ کا باپ بنا دیا جائے۔
اس ڈرامے میں ڈرامہ نگار نے اقبال کے اشعار کی تحریف کرتے ہوئے ہمارے سیاسی ، معاشی ، تعلیمی ، اور حکومتی حالات کی بھر پور عکاسی کردی ہے۔ بےشک ہماری سوچ ملکی نہیں بلکہ مقامی ہے۔ ہم جہاں کہیں پیدا ہوئے ہیں اس جگہ پر فخر کرتے ہیں۔ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے پاکستان پر ہمیں کوئی فخر نہیں کسی کو پشتون ہونے پر فخر ہےے کوئی پنجابی ہونے پر نازاں ہے کوئی بلوچی ہونے کی حیثیت سے متکبر ہے۔ پاکستانی سوچ ناپید ہوتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ بکراپیڑی کا رہائشی ہونے کی حیثیت سے بھی لوگ فخرکرتے ہیں لیکن پاکستانی ہونے پر کسی کو ناز نہیں۔ بےشک
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
فاقوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
ان پڑھ ہے اور جاہل ہر نوجواں ہمارا
امریکے کی امانت پیٹوں میں ہمارے
ہم رازداں ہیں اس کے وہ راز داں ہمارا
ہے رشک ِ خلد اپنا صحرائے بکرا پیڑی
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
پیروڈی کے یہ اشعار بےشک ہماری زندگی کی مجموعی عکاسی کرتے ہیں اور یہ بات بطور خاص انتہائی درناک اور الم ناک ہے کہ امریکہ ہمارے تمام تر معیشت پر قابض ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنے وطن عزیز اس کے ہاں بیچ ڈالا ہے وہ ہماری نس نس میں گھس چکا ہے۔ نجانے ہم امریکی دلدل سے کب چھٹکارا حاصل کریں گے۔ یہ فکر انگیز اور عبرت ناک بات ہے۔
کردار نگاری:۔
تعلیم بالغاں کے کرداروں میں مولوی صاحب جو کہ مدرسے کے استاد ہیں، مولوی صاحب کی بیوی اور شاگرد قصاب ، حجام ، وکٹوریہ والا خان صاحب، دودھ والا ، دھوبی اور ملاباری اہم کردار ہیں۔ اس کے علاوہ اتحاد ، تنظیم اور یقین محکم لکھے ہوئے گھڑے بھی اس ڈرامے کے کردار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ تین گھڑوں میں سے اتحاد تنظیم اور والے دوگھڑوں کا ماشاءاللہ خاتمہ بالخیر ہو چکا ہے۔ ڈرامہ نگار نے کردار نگاری کرتے وقت فنی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ ہر کردار اپنی اپنی نفسیات کے مطابق حرکات و سکنات کرتے ہوئے ڈرامے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ان کرداروں میں سے مدرسے کے استاد اور ان کے شاگردقصاب کا کردار مرکزی کردار کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ مولوی صاحب کا کردار ایسا کردار ہے جو شروع سے لیکر آخر تک مصروف عمل رہتا ہے۔ تمام شاگردوں کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھنا اور ان سے نمٹنا مولوی صاحب کے کردار کا خاصہ ہے۔ خاص طور پر ان کا ڈنڈے والا ہاتھ انتہائی مصروف رہتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں اور زبان کو بڑی چابکدستی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ قصاب جو کہ مدرسے کا بالغ طالب علم ہے۔ ایک ہوشیار شاگرد کی طرح تمام درپیش آنے والے حالات و واقعات کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ مولوی صاحب کے تمام ڈنڈے جوں تو کر کے سہہ جاتا ہے۔ کلاس کا مانیٹر ہونے کی وجہ سے ڈرامے میں قصاب کا کردار مولوی صاحب کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
مکالمہ نگاری:۔
کردار نگار ی کے ساتھ ساتھ مکالمہ نگاری بھی توجہ طلب فن ہے۔ ڈرامہ تعلیم بالغاں اس لحاظ سے اور بھی قابل غور ہے کہ سارے کا سار ا ڈرامہ سوال جواب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈرامے کا اس طرح سے پیش کرنا مشکل ترین فن ہے لیکن بحر حال ڈرامہ نگار نے اس مشکل فنی مرحلے کو بھی بڑی کامیابی کے ساتھ نبھایا ہے اور کرداروں کے سوال جواب کا ایسا مسلسل سلسلہ چھیڑا ہے کہ پورے کا پورا ڈارمہ مکالماتی انداز میں پیش کر دیا ہے۔ اسٹیج ڈرامہ کہنے کے ساتھ ساتھ ہم اس ڈرامے کو مکالماتی ڈرامہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مختصر مختصر سوال و جواب کی صورت میں بڑی فنکاری کے ساتھ ڈرامہ نگار نے بات کو آگے کی طرف بڑھایا ہے۔ یہ مکالمے مختصر ترین ہیں ۔ ان مکالموں میں لمبی لمبی تقریریں نہیں کہ پڑھنے والا دیکھ کر اکتاہٹ کا شکار ہو جائے بلکہ اختصار ہی میں ہر کردار اپنا مطلب پیش کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مکالمہ نگاری کرتے وقت ڈرامہ نگار نے کرداروں کی ذہنی سطح کا بھی خیال رکھا ہے۔ ہر کردار اپنی حیثیت کے مطابق بات کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں زیادہ تر مکالمے فطری بلکہ انتہائی فطری ہیں مکالموں کا فطری ہونا ہی فنی ضرورت ہے اس میں شک نہیں کہ دوسرے شاگردوں کے برخلاف حجام کچھ زیادہ ہی چالاکیاں کرتا ہے۔ اور مولوی صاحب کو اشارتاً ٹوکتا رہتا ہے۔ لیکن یہ بھی اس کی فطرت ہے جسے ڈرامہ نگارنے ظاہر کر دیا ہے۔
پلاٹ و اسلوب:۔
اس ڈرامے کا پلاٹ ہوتے ہوئے بھی محسوس نہیں ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ڈرامہ کلی طور پر مکالموں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔ جہاں تک اسلوب کاتعلق ہے تو یہ ڈراما سادہ و سلیس زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے یہ ڈرامہ دلچسپی اور دلکشی کی خصوصیت بھی رکھتا ہے۔ ڈرامے کی عبارت کو طنزیہ اور مزاحیہ تحریر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کہیں سے بھی اٹھا کر دیکھ لیں ڈرامے کی تحریر میں یہ دونوں عناصر آپ کو ملیں گے۔ ڈرامہ نگار نے کہیں کہیں لفظی ہیر پھیر سے طنز و مزاح پیدا کیا ہے۔ مثلاً لکڑیوں کو لڑکیاں کہنا اور کوائف کو طوائف کہنا اس کی مثالیں ہیں۔
تجسّس و جستجو:۔
کسی بھی کہانی کے لئے تجسّس و جستجو کے عناصر بہت ضروری ہوتے ہیں۔ یہی و ہ عناصر ہیں جو کہانی میں دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اگر ہم تجسّس و جستجو کے ادبی جواہر اس ڈرامے میں ڈھونڈتے ہیں تو ہمیں مایوسی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ڈرامے کی فضاءمیں ایسے حالات نہیں پائے جاتے کہ ہم اپنے آپ سے سوالات کر سکیں۔ یہ نہیں سوچ سکتے کہ اب کیا ہوگا؟ اور اگر کسی ایک آدھ مقام پر ہمارا تجسّس ابھرتا بھی ہے تو ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ یعنی ہم جانتے ہیں کہ اب مولوی صاحب قصاب کو ڈنڈا ماریں گے ۔ ڈنڈے کے بے دریغ استعمال نے تجسّس و جستجو کو نقصان پہنچایا ہے مولوی صاحب نے اس ڈنڈے کا اتنا زیادہ استعمال کیا ہے کہ ہم اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بات بات پر ڈنڈا اٹھا لینا اور شاگردوں کی پٹائی کرنا تجسّس و جستجو پر حاوی ہو گیا ہے۔ پورے ڈرامے میں زیادہ سے زیادہ اگر تین چار دفعہ ڈنڈے کا استعمال کےا جاتا تو بہت تھا۔ لیکن ہر با ت پر ڈنڈے کے استعمال نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ اگلے ہی لمحے پھر ڈنڈا استعمال ہوگا اور واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ ڈرامہ فنی اصولوں کے مطابق ہے او ر جہاں تک فنی کمزوریوں کا تعلق ہے تو تھوڑی بہت کمزوریاں تو انسان کے ہر کام میں ہوتی ہیں۔
فکری جائزہ:۔
فکری طور پر ڈرامہ نگار نے طنزیہ اور مزاحیہ انداز اختیار کرتے ہوئے بہت سے قومی اور ملی مسائل اور برائیوں کا ذکر چھیڑا ہے۔ طنز و مزاح کا مطلب محض ہنسنا ہنسانا نہیں ہوتا بلکہ مزاحیہ و طنزیہ نشتروں کے ذریعے معاشرے کے پھوڑوں پر نشتر زنی کرتے ہوئے فاسد مادوں کا انخلاءکرنے کی صور ت میں قوم و ملت کا علاج کیا جاتا ہے۔ تاکہ صحت مند معاشرہ معرض وجود میں آسکے۔ چنانچہ ہم اسی مقصد کے تحت ڈرامہ نگار نے تعلیم بالغاں میں طنزیہ و مزاح کے نشتر استعمال کرتے ہوئے ہماری بہت سی بیماریوں اور گمراہیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے ڈرامہ نگار یہ تلخ حقیقت ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے قائداعظم کے بنائے ہوئے پاکستان میں اتحاد اور تنظیم کا ستیا ناس کردیا۔ جس وقت یہ ڈرامہ لکھا گیا تھا اس وقت یقین محکم البتہ سالم تھا۔ لیکن ڈرامہ لکھے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ ڈرامہ نگار نے اشارہ کر دیا ہے کہ تیسرے اصول کو ختم کرنے کے لئے منفی رویہ سرگرم عمل ہے۔ چنانچہ یہ افسوس ناک حقیقت ثابت کہ ہم نے یقین محکم کو بھی اپنی علمی زندگی میں ختم کردیا ہے اور جب یہ تینوں عناصر ختم ہو چکے ہیں تو اب اس سر زمیں کی باری ہے جس کے لئے یہ تین سنہرے اصول وضع کئے گئے تھے۔ڈرامہ نگار نے یہ فکری پیغام دیا ہے کہ اگر ہم اب بھی ہوش کے ناخن لیں تو اپنے مستقبل اور وطن کو بچا سکتے ہیں۔ اتحاد یقین محکم کو اپنی عملی زندگی میں دوبارہ زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لئے کہ بےشک
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
لیکن افسوس ہماری سادگی پر کہ لڑتے ہیں اور اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ حکمرانوں نے درحقیقت مندرجہ بالا تینوں عناصر کا خاتمہ کیا ہے۔ اور عوام اتنے سادہ ہیں کہ اب بھی اپنے آ پ کو طاقتور سمجھ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جھوٹے اور لٹیر ے سےاستدانوں کی گردنیں توڑ دی جائیں۔ اس لئے کہ انہوں نے مختلف ہتھکنڈوں اتحاد اور تنظیم اور یقین محکم اور وطن عزیز کی گردن توڑی ہے۔
ڈرامہ نگار نے مختلف مسائل کا ذکر چھیڑتے ہوئے تعلیم اور محکمہ تعلیم کی زبوں حالی کا بھی رونا رویا ہے۔ ہم لوگ وقت پر تعلیم حاصل نہیں کرتے جب تعلیم حاصل کرنے کا وقت گزر جاتا ہے تو پچھتاوے کی حالت میں ہاتھ ملتے رہتے ہیں اور پھر تعلیم بالغاں کا سلسلہ شروع کرنا پڑتا ہے۔ جو کہ مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا۔ قصاب کا باپ بھی مولوی صاحب کا شاگرد رہ چکا ہوتا ہے اس طرح دھوبی ہے کہ عمر کے بوجھ سے کمر جھک چکی ہے لیکن مولوی صاحب سے اس نے جو پڑھا کپڑوں کی طرح اسے دھو ڈالا۔ ڈرامے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت تعلیم اور محکمہ تعلیم پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتی۔ استاد ہیں کہ مدرسے کے مولوی صاحب کی طرح وکٹوریہ والا جیسے شاگردوں سے ادھار بیس روپے لے کر گزر اوقات کرتے ہیں۔ اس لئے کہ محکمہ تعلیم انہیں تنخواہ نہیں دیتی ۔ اس طرح غربت اور کسم پرسی کے عالم میں شاگردوں سے ادھار کھانے والے استادوں کی عزت نفس مجروح ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ ان سے دبے دبے رہتے ہیں۔ یہاں پر ڈرامہ نگار نے یہ حقیقت بھی اجاگر کر دی ہے کہ دراصل ساری پاکستانی قوم ادھار کے ٹکڑوں پر پل رہی ہے۔ معمولی استاد کا ادھار لے لینا تو کوئی بڑی بات نہیں ہماری حکومت اور صاحب اقتدار لوگ بھی باہر سے بڑی بڑی رقوم لے کر ہڑپ کر رہے ہیں جس کا سارا بوجھ غریب عوام کی گردن پر ڈالا جا رہا ہے۔ تاکہ اتحاد ، تنظیم ، یقین محکم اور پاکستا ن کی طرح غریب عوام کی گردن بھی توڑ دی جائے۔ اس محکمہ کے علمی کمالات و جمالات کا یہ مقام اعلیٰ ہے کہ وزیر تعلیم بھی ”زیر تعلیم“ ہے۔ محکمہ تعلیم کے ان پڑھ اور جاہل وزیر نور علم پھیلانے میں جاہلانہ کردار ادا کرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ تلخ حقیقت لمحہ فکریہ ہے۔ڈرامہ نگار کا مقصد یہی ہے کہ اٹھو اور ایسے جاہل زیر تعلیم وزیروں سے جان چھڑالو۔ ان وزیروں کی علمی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ اپنا دستخط بھی نہیں کر سکتے اور دوسروں کی لکھی ہوئی تقریر پڑھنے سے بھی قاصر ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں تعلیم کیا خاک پھیلے گی۔
اسی جہالت لاعلمی اور مادہ پرستی کا یہ ثمرہ ہے کہ ہم اپنے ماضی سے بھی کٹ چکے ہیں ۔ ہمیں اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں سے واقفیت بھی نہیں۔ ہماری یہ حالت ہے کہ اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ محمد بن قاسم نے سترہ سال کی عمر میں کیا کیا تھا تو ہمارے شعور میں جو بات ہوتی ہے اس کے مطابق عرض کرتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے سترہ سال کی عمر میں شادی فرمائی تھی۔ تعلیمی نصاب کا یہ عالم ہے کہ فلمی گیت اور گانوں کوزیادہ وقعت دی جاتی ہے۔ نصاب بنانے والوں کے لاشعور میں نام نہاد جدیدیت کے حوالے سے غزلوں اور سنجیدہ نظموں کی بجائے فلمی گیت ہی ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب اپنے شاگرد(دودھ والا) نے جب غزل پڑھنے کو کہتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ”اس میں تو گجلہا ہی نا“ ۔ کتاب میں صرف فلمی گانے ملتے ہیں۔ آئے دن نصاب کی تبدیلی طلبا و طالبات کو ایک طرف تو غیر یقینی صورتحال سے دو چار کرتی ہے۔ نئی کتابیں دستیاب نہیں ہوتیں اور یا اگر ملتی ہیں تو اپنی ذاتی کمائی بڑھا کر مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے۔ آئے دن نصاب کی تبدیلیاں بھی اتحاد اور تنظیم پر ضرب لگاتی ہیں۔ طلبا کے لئے نئے نصاب میں آسان ترین کتاب منتخب کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں طلبا محنت سے جی چرانے لگتے ہیں اور سستی اور کاہلی ان کے مستقبل کا مقدر بن جاتی ہے۔
ڈرامہ نگار نے اپنے اس ڈرامے میں نظام جمہوریت پر بھی طنز کیا ہے۔ بےشک
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال نے جمہوریت کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ
اس سراب ِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
ڈرامہ نگار نے بھی ایک ناقابل فرموش مثال دی ہے اور جمہوریت کے مضحکہ خیز ہونے کو ثابت کر دکھایا ہے۔ کلاس میں شاگردوں سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ ہمایوں ظہیر الدین بابر کا بیٹا تھا یا باپ، دو شاگرد کہتے ہیں کہ ہماریوں بابر کا بیٹا تھا۔ جبکہ باقی سب کی اکثریت یہ فرماتی ہے کہ ہمایوں بابر کا باپ تھا۔ اب چونکہ ہمایوں کو بابر کا باپ کہنے والوں کی اکثریت ہے اس لئے جمہوریت جیت جاتی ہے۔ یہی جمہوریت ہے کہ بیٹے کواپنے باپ کا باپ بنا دیا جائے۔
اس ڈرامے میں ڈرامہ نگار نے اقبال کے اشعار کی تحریف کرتے ہوئے ہمارے سیاسی ، معاشی ، تعلیمی ، اور حکومتی حالات کی بھر پور عکاسی کردی ہے۔ بےشک ہماری سوچ ملکی نہیں بلکہ مقامی ہے۔ ہم جہاں کہیں پیدا ہوئے ہیں اس جگہ پر فخر کرتے ہیں۔ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے پاکستان پر ہمیں کوئی فخر نہیں کسی کو پشتون ہونے پر فخر ہےے کوئی پنجابی ہونے پر نازاں ہے کوئی بلوچی ہونے کی حیثیت سے متکبر ہے۔ پاکستانی سوچ ناپید ہوتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ بکراپیڑی کا رہائشی ہونے کی حیثیت سے بھی لوگ فخرکرتے ہیں لیکن پاکستانی ہونے پر کسی کو ناز نہیں۔ بےشک
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
فاقوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
ان پڑھ ہے اور جاہل ہر نوجواں ہمارا
امریکے کی امانت پیٹوں میں ہمارے
ہم رازداں ہیں اس کے وہ راز داں ہمارا
ہے رشک ِ خلد اپنا صحرائے بکرا پیڑی
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
پیروڈی کے یہ اشعار بےشک ہماری زندگی کی مجموعی عکاسی کرتے ہیں اور یہ بات بطور خاص انتہائی درناک اور الم ناک ہے کہ امریکہ ہمارے تمام تر معیشت پر قابض ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنے وطن عزیز اس کے ہاں بیچ ڈالا ہے وہ ہماری نس نس میں گھس چکا ہے۔ نجانے ہم امریکی دلدل سے کب چھٹکارا حاصل کریں گے۔ یہ فکر انگیز اور عبرت ناک بات ہے۔