تعبیر
ساقی بھی نیا، محفل بھی نئی، کردار نئے، منظر بھی نئے
جو خواب سہانا دیکھا تھا، یہ اس کی تو تعبیر نہیں
ہیں نقش بھی سارے مدھم سے، عنوان بھی بدلے بدلے سے
جو خون سے ہم نے لکھی تھی، لگتا ہے وہ تحریر نہیں
اپنوں نے رنگ مٹائے تو غیروں نے اسے دونیم کیا
سر کٹوائے تھے جس کے لیے اب ویسی یہ تصویر نہیں
تم پہلے شاخیں کاٹنے ہو، پھر ان پہ نشیمن بنتے ہو!
تم کہتے ہو تعمیر جسے، سچ پوچھو تو تعمیر نہیں
کس پھول کا تم نے پاس کیا؟ کس غنچے کا احساس کیا؟
کیوں گلشن گلشن جیتے ہو، یہ گلشن کی توقیر نہیں
چند کرنوں کی خاطر انورؔ جو سورج کا محتاج بنے
اور چاند بھی کیسا چاند ہوا، اپنی جس کی تنویر نہیں
شاعر: پروفیسر انور جمیل
گورنمنٹ ڈگری کالج چشتیاں
ساقی بھی نیا، محفل بھی نئی، کردار نئے، منظر بھی نئے
جو خواب سہانا دیکھا تھا، یہ اس کی تو تعبیر نہیں
ہیں نقش بھی سارے مدھم سے، عنوان بھی بدلے بدلے سے
جو خون سے ہم نے لکھی تھی، لگتا ہے وہ تحریر نہیں
اپنوں نے رنگ مٹائے تو غیروں نے اسے دونیم کیا
سر کٹوائے تھے جس کے لیے اب ویسی یہ تصویر نہیں
تم پہلے شاخیں کاٹنے ہو، پھر ان پہ نشیمن بنتے ہو!
تم کہتے ہو تعمیر جسے، سچ پوچھو تو تعمیر نہیں
کس پھول کا تم نے پاس کیا؟ کس غنچے کا احساس کیا؟
کیوں گلشن گلشن جیتے ہو، یہ گلشن کی توقیر نہیں
چند کرنوں کی خاطر انورؔ جو سورج کا محتاج بنے
اور چاند بھی کیسا چاند ہوا، اپنی جس کی تنویر نہیں
شاعر: پروفیسر انور جمیل
گورنمنٹ ڈگری کالج چشتیاں