رضا تضمین بر کلامِ رضؔا ۔ نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے

نبی مَظہرِ عِلمِ رَبِّ علی ہے
نبی واقفِ ہر خفی و جلی ہے
ازل سے جُداگانہ عظمت مِلی ہے

’’نبی سَروَرِ ہر رسول و ولی ہے
نبی راز دارِ مَعَ اللہ لِی ہے‘‘


کہوں نعت کیا میں تِری میرے مولٰی!
تُو اعلٰی سے اعلٰی، تُو بالا سے بالا
تُو اونچے سے اونچے، تُو والا سے والا

’’وہ نامی کہ نامِ خُدا نام تیرا
رؤوف و رحیم و علیم و علی ہے‘‘


جہاں تاجدار آکے کرتے ہیں سر خم
چلیں سر کے بل جس میں دارا و کے جم
وہ خورشید سے جس کے ذرّے نہیں کم

’’ہے بیتاب جس کیلئے عرشِ اعظم
وہ اس رہر و لامکاں کی گلی ہے‘‘


یہ اعزازِ توصیف، یہ مدخ خوانی
یہ شہرت، قبولیّت و نیک نامی
یہ رحمت، عنایت، کرم، مہربانی

’’نکیرین کرتے ہیں تعظیم میری!
فدا ہو کے تجھ پر یہ عزت مِلی ہے‘‘


کروں ذکر کیا دشنوں کا، ستم کا
کہوں کیا سبب ہائے میں چشمِ نم کا
ملے مجھ کو چھینٹا سحابِ کرم کا

’’تلاطم ہے کشتی پہ طوفانِ غم کا
یہ کیسی ہوائے مخالف چلی ہے‘‘


میں غمگین ہوں یا اَنیسی اَغِثنِی
پریشاں ہوں میں یا مُعینی اَغِثنِی
میں بیمار ہوں یا طَبیبی اَغِثنِی

’’نہ کیوں کر کہوں یا حَبِیْبِیْ اَغِثنِی
اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے‘‘


مِرے دردِ دل کی دوا ذکرِ بطحا
غبارِ مدینہ مِرے رخ کا غازہ
گلوں سے ہے بڑھ کر مدینے کا کانٹا

’’صبا ہے مجھے صرِ صرِ دشتِ طیبہ
اِسی سے کلی میرے دل کی کھلی ہے‘‘


مَحبّت، عقیدت میں سب سے وہ کامل
صداقت، عدالت، شرافت کے حامل
سبھی دلربا، رونق افزائے محفل

’’ترے چاروں ہمدم ہیں یکجان یکدل
ابوبکر فاروق عثمان علی ہے‘‘


فنا سے، بقا سے، حسب سے، نسب سے
مصیبت سے، غم سے، سرورو طرب سے
زمیں سے، فلک سے، عجم سے، عرب سے

’’خدا نے کیا تجھ کو آگاہ سب سے
دو عالم میں جو کچھ خفی و جلی ہے‘‘


نہیں غم اگرچہ بیاں سے ہوں قاصر
کہ خواہش مِری تجھ پہ روشن ہے، باہر
نہاں سب عیاں اور باطن ہے ظاہر

’’کروں عرض کیا تجھ سے اے عالمِ السر
کہ تجھ پر مری حالت دل کھلی ہے‘‘


خجل اپنے اعمال سے ہوں سراسر
نہیں منہ دکھانے کے قابل میں یکسر
سنو! عرض یہ بہرِ شبّیر و شبّر

’’تمنا ہے فرمائیے روزِ محشر
یہ تیری رہائی کی چٹھی ملی ہے‘‘


مِلے اذن طیبہ نگر کا جو مجھ کو
سعادت اگر یہ مجھے بھی عطا ہو
مَسرت بڑی اس سے کیا ہوگی خود کو

’’جو مقصد زیارت کا برآئے پھر تو
نہ کچھ قصد کیجئے یہ قصدِ دلی ہے‘‘


مِرے مصطفٰے! مجتبٰے، جانِ عالَم
نہیں کوئی بھی تجھ سے بڑھ کے مکرم
تو فخرِ بنی آدم و فخرِ آدم

’’ترے درکار درباں ہے جبریل اعظم
ترا مدح خواں ہر نبی و ولی ہے‘‘


سُنے عرض جو اپنے در کے گدا کی
کرے دَم میں بارش جو لطف و سخا کی
نہ چھوڑے کوئی کسر باقی عطا کی
’’شفاعت کرے حشر میں جو رضاؔ کی
سوا تیرے کس کو یہ قدرت مِلی ہے‘‘

تضمین نگار: صاحبزادہ ابوالحسن واحؔد رضوی
 
Top