تصوّر بھی مرا اے مہ جبیں دل میں نہیں تیرے

غزل
(مزمل شیخ بسملؔ)


یہ حسرت تھی کہ پیکر انکا یوں پیشِ نظر ہوتا
جبیں ہوتی ہماری اور انکا سنگِ در ہوتا

یہ مرنے میں کوئی مرنا نہیں ہے، راہ میں مرنا
مزہ مرنے کا جب تھا، آپ کے قدموں میں سر ہوتا

دوبارہ دل لگی کرتے جو ہم، اور وہ دغا کرتے
تو، پھر اک بار تازہ دم مرا زخم جگر ہوتا

چکھا دیتا مزہ دشمن کو اس کی لن ترانی کا
مرے پلّے پہ گر وہ بے وفا و فتنہ گر ہوتا

پیے جو خون کے آنسو ہوئے "مرجان" سینے میں
ہماری چشم تر سے اشک گرتا تو گہر ہوتا

لڑائی مدتوں ہم نے نظر اپنی ستاروں سے
پہنچتا آسماں تک میں، تو تاروں سے اِدھر ہوتا

مری آنکھوں کے روغن سے چراغِ بے بسی ہمدم
مرے عارض کے اوپر کیوں نہ روشن تا سحر ہوتا

تصوّر بھی مرا اے مہ جبیں دل میں نہیں تیرے
اندھیری رات کیوں ہوتی اگر نورِ قمر ہوتا

چمن میں تم اکیلے پی رہے ہو بیٹھ کر بسملؔ
مزہ جب تھا پلانے کو کوئی رشکِ قمر ہوتا

 

بھلکڑ

لائبریرین
سُبحان اللہ!
بہت خوبصورت اشعار جناب!
یہ حسرت تھی کہ پیکر انکا یوں پیشِ نظر ہوتا
جبیں ہوتی ہماری اور انکا سنگِ در ہوتا
پیے جو خون کے آنسو ہوئے "مرجان" سینے میں
ہماری چشم تر سے اشک گرتا تو گہر ہوتا
واہ واہ ۔ لاجواب
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہ
کیا خوب کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری آنکھوں کے روغن سے چراغِ بے بسی ہمدم
مرے عارض کے اوپر کیوں نہ روشن تا سحر ہوتا
 

یہ مرنے میں کوئی مرنا نہیں ہے، راہ میں مرنا
مزہ مرنے کا جب تھا، آپ کے قدموں میں سر ہوتا


پیے جو خون کے آنسو ہوئے "مرجان" سینے میں
ہماری چشم تر سے اشک گرتا تو گہر ہوتا


چمن میں تم اکیلے پی رہے ہو بیٹھ کر بسملؔ
مزہ جب تھا پلانے کو کوئی رشکِ قمر ہوتا

واہ واہ۔ مزے دار مزے دار۔بہت بہت داد قبول فرمائیے جناب
 

باباجی

محفلین
واہ واہ ۔۔۔۔ بہت ہی خوب مزمل
لطف آگیا ۔۔ بہت عرصے بعد کچھ ایسا پڑھنے کو ملا کہ ایک ایک شعر پر بے اختیار داد نکلی

یہ حسرت تھی کہ پیکر انکا یوں پیشِ نظر ہوتا
جبیں ہوتی ہماری اور انکا سنگِ در ہوتا

پیے جو خون کے آنسو ہوئے "مرجان" سینے میں
ہماری چشم تر سے اشک گرتا تو گہر ہوتا

تصوّر بھی مرا اے مہ جبیں دل میں نہیں تیرے
اندھیری رات کیوں ہوتی اگر نورِ قمر ہوتا

چمن میں تم اکیلے پی رہے ہو بیٹھ کر بسملؔ
مزہ جب تھا پلانے کو کوئی رشکِ قمر ہوتا
 
Top