احمد مشتاق ترے دیوانے ہر رنگ رہے، ترے دھیان کی جوت جگائے ہوئے ۔ احمد مشتاق

فرخ منظور

لائبریرین
ترے دیوانے ہر رنگ رہے، ترے دھیان کی جوت جگائے ہوئے​
کبھی نتھرے سُتھرے کپڑوں میں، کبھی انگ بھبھوت رمائے ہوئے​
اس راہ سے چھپ چھپ کر گذری، رُت سبز سنہرے پھولوں کی​
جس راہ پہ تم کبھی نکلے تھے، گھبرائے ہوئے، شرمائے ہوئے​
اب تک ہے وہی عالم دل کا، وہی رنگِ شفق، وہی تیز ہوا​
وہی سارا منظر جادُو کا، میرے نین سے نین ملائے ہوئے​
چہرے پہ چمک آنکھوں میں حیا، لب گرم خنک چھب نرم نوا​
جنہیں اتنے سکون میں دیکھا تھا وہی آج ملے گھبرائے ہوئے​
ہم نے مشتاق یوں ہی کھولا یادوں کی کتابِ مقدّس کو​
کچھ کاغذ نکلے خستہ سے، کچھ پھول ملے مرجھائے ہوئے​
(احمد مشتاق)​
 
Top