قمر جلالوی تربت کہاں لوحِ سرِ تربت بھی نہیں ہے ۔ استاد قمر جلالوی

شاہ حسین

محفلین
تربت کہاں لوحِ سرِ تربت بھی نہیں ہے
اب تو تمھیں پھولوں کی ضرورت بھی نہیں‌ہے

وعدہ تھا یہیں کا جہاں فرصت بھی نہیں ہے
اب آگے کوئی اور قیامت بھی نہیں ہے

اظہارِ محبّت پہ بُرا مان گئے وہ
اب قابلِ اظہار محبّت بھی نہیں ہے

کس سے تمھیں تشبیہہ دوں یہ سوچ رہا ہوں
ایسی تو جہاں میں کوئی صوُرت بھی نہیں ہے

تم میری عیادت کے لئے کیوں نہیں آتے
اب تو مجھے تم سے یہ شکایت بھی نہیں ہے

اچھا مجھے منظور قیامت کا بھی وعدہ
اچھا کوئی اب دور قیامت بھی نہیں ہے

باتیں یہ حسینوں کی سمجھتا ہے قمر خوب
نفرت وہ جسے کہتے ہیں نفرت بھی نہیں ہے

استاد قمر جلالوی

رشکِ قمر ۔
 

شاہ حسین

محفلین
بہت شکریہ جناب فاتح صاحب ۔

واقعی بہت بڑی غلطی ہو گئی ۔ اور غلطی کی وجہ بھی سمجھ آگئی لائٹ چلی گئی تھی اور میں سوگیا نیند سے تازہ تازہ اُٹھا تو یہ غزل ٹائپ کرنے بیٹھ گیا

بہت ممنون ہوں آپ کا ۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ شاہ صاحب۔ عنوان میں بھی مطلع کا مصرع درست کر دیجیے۔
آپ خوش قسمت ہیں کہ بجلی کے بغیر بھی سو جاتے ہیں ادھر ہم ہیں کہ جوں ہی پنکھے کی مسحور کن اور رسیلی لوری بند ہو جاگ جاتے ہیں۔
 
Top