تذکرہ چند کھیلوں کا!

عبد الرحمن

لائبریرین
سیانے کہتے ہیں جسمانی ورزش اور کھیل کود ہر عمر اور ہر دور میں یکساں اہمیت کا حامل ہے۔جو شخص کھیل کود کو پڑھائی اور دیگر ضروری مشاغل کی راہ میں رکاوٹ اور وقت کا ضیاع سمجھتا ہے اس کی دماغی اور جسمانی ساخت اور کارکردگی انتہائی توجہ کے قابل ہوتی ہے۔ ایک روز یوں ہی کسی واقعے کے زیر اثر یہ معروف امر ذہن میں گردش کررہا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک انوکھا خیال بھی آوارد ہوا جس کو قلم بند نہ کرنا یقینا بڑی زیادتی ہوتی۔

ننھے منے معصوم بچے بعض اوقات اس لیے کھیل میں سستی دکھا جاتے ہیں کہ ان کے پاس نہ بیٹ ہوتا ہے نہ بال اور نہ ہی فٹ بال۔ المختصر وہ سامان مہیا نہیں ہوتا جس کے وہ نہایت شوقین ہوتے ہیں اور جس سے نئے نئے ریکارڈ بنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

اپنے بچپن کے اس دور میں جب گیند اور بلے سے کھیلنا تو دور کی بات ٹھیک طرح سے پکڑنا بھی نہیں آتا تھا۔ ہم کچھ ایسے "آؤٹ ڈور گیمز" کھیلا کرتے تھے جو بھلائے نہیں بھولتے اور جن کو کھیلنے کی تمنا آج بھی شدت سے دل کے ایوانوں میں شور مچاتی ہے۔ ان کھیلون کا تذکرہ یقینا احباب کے لبوں پر مسکراہٹ کا سامان مہیا کرے گا۔

1 پکڑم پکڑائی:

مختصر وقت کے پیش نظر کھیلنے کے لیے ایک بہت ہی عمدہ کھیل۔ ہوتا کچھ یوں تھا کہ چار پانچ بچے"پُگم " کے ذریعے یہ فیصلہ کرتے کہ "دام" کس کا ہے؟ پگم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ سارے کھلاڑی اپنی اپنی ہتھیلی کی پشت کو لٹکا کر ایک ساتھ ملاتے اور اچھال دیتے۔ کسی کا ہاتھ سیدھا ہوتا تو کسی کا الٹا۔ فیصلہ اکثریت کی بنا پر ہوتا تھا۔ یعنی پانچ میں سے تین سیدھے ہاتھ نکلے تو تینوں خطرے سے باہر۔اب بچے دو۔ دو میں فیصلہ کرنے کے لیے تیسرے ہاتھ کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ اس کو ایمپائر کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ چناں چہ دوبارہ "پگم " کی جاتی۔ دونوں فریقوں میں سے جس کا ہاتھ سیدھے یا الٹے کی بنا پر اکیلا رہ جاتا پکڑنے کی باری اسی کی ہوتی۔

اب کھیل شروع ہوجاتا ہے اور پکڑنے والا کسی ایک جگہ پر کھڑا ہوکر پانچ سے دس تک گنتا ہے تاکہ بھاگنے والے جلد سے جلد پکڑنے والے کی پہنچ سے دور ہوسکیں۔ متعین گنتی کے بعد جب پکڑم پکڑائی شروع ہوتی ہے تو جو پہلے ہاتھ آگیا پکڑنے کی باری اس کی ہوتی۔ اس تیز رفتار گیم سے ایک تو دوڑ بھی اچھی خاصی لگ جاتی اور کم وقت میں تفریح اور جسمانی ورزش کا بھی اچھا خاصا انتظام ہوجاتا۔

2 برف پانی:

انتہائی دلچسپ اور مزے دار کھیل! یہ عام طور پر ویک اینڈ میں یا زیادہ وقت دستیاب ہونے کی بنا پر کھیلا جاتا۔ یہاں پگم کے ذریعے دو بندوں کا انتخاب کیا جاتا جن کو دام دینا ہوتا۔ ایک کا کام ہوتا پانی کو برف کرنا اور دوسرے کا کام ہوتا برف کو ڈیپ فریزر میں بند کرکے پگھلنے سے بچانا۔ مطلب یہ کہ ابتداء میں دونوں دام دینے والے ایک ساتھ بھاگنے والوں پر یلغار کرتے تھے۔ جیسے ہی کوئی "بھگوڑا" برف ہوا۔ دوسرا ساتھی اسے اپنے ساتھ لے جا کر کسی مخصوص جگہ پر اپنے پیچھے کھڑا کردیتا اور مدد کے لیے آنے والوں کو یا تو پکڑنے کی کوشش کرتا یا "قیدی" کو "ریسکیو ٹیم" سے بچانے کے لیے اپنی جان مارتا رہنا۔ اب یہ چھڑوانے والوں کا امتحان ہوتا تھا کہ کیسے اپنے ساتھی کو پھر سے بازیاب کراکر میدان میں لا سکیں۔ اتنی دیر میں پہلے والا ساتھی ادھر ادھر بھاگنے والوں کو پکڑ پکڑ کر اپنے ساتھی کے پاس جمع کرانے کے لیے سر پٹ دوڑتا رہتا۔ اگر کبھی ایسی صورت حال پیش آجائے کہ سب کے سب برف ہوگئے اور ایک آدھ ہی میدان میں رہ گیا تو دونوں ساتھی مل کر اس کو پکڑنے نکل پڑتے۔ چوں کہ پیچھے کوئی اور نہیں ہوتا تھا اس لیے یہ خطرہ نہیں رہتا کہ سارے برف کے گولے پھر سے پانی ہوجائیں گے۔

اب اگر وہ اکیلا کسی طرح دونوں دام دینے والوں کو "ڈاج" دے دے کر ایک دو کو بھی پانی کردیتا تو پکڑنے والوں کی شکل دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی اور اگر وہ بھی پکڑا جائے تو پھر یہ دیکھا جاتا کہ پہلے دو کون پکڑے گئے ہیں۔ پھر باری ان کی ہوتی۔ لیکن یہ اس صورت میں، جب کھیل کو مزید جاری رکھنا ہوتا۔ ورنہ کھیل کی ایک نشست ختم ہوتے ہی سب اپنا اپنا ہوم ورک کرنے شرافت سے گھروں کی راہ لے لیتے۔

بہت سے بچے اپنی دام دیکھ کر ہی کلٹی ہوجاتے یعنی کھیل سے دستبردار ہوجاتے اور بعض مرتبہ پگم میں ہی کسی کی پدی لگ جائے تو وہ کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی "میں نہیں کھیل رہا " کہہ کر نو دو گیارہ ہوجاتا۔ کوئی رحم دل لیڈر ہوتا تو اسے کھیل میں شامل رکھتا اور باری کسی اچھا بھاگنے والے کو دیتا۔ لیکن عام طور پر دستور یہ تھا اس کو ایسی حرکت پر آئندہ نہ کھلانے کی دھمکی دے کر فارغ کردیا جاتا۔

چھپن چھپائی:

چھپن چھپائی
تیری ساس کی ملائی
تو نے لپ لپ کھائی
تجھے شرم نہ آئی

یہ بچوں کا بنایا ہوا ایک خود ساختہ قطعہ تھا جس میں "آئی" کا لفظ جس کے سر پر آتا سمجھ لیجے کہ اس کی شامت آجاتی۔ یہ برف پانی پکڑم پکڑائی و دیگراں جیسے بھاگ دوڑ والے کھیلوں سے بالکل مختلف اور انتہائی مزے دار گیم ہے۔ لیکن صرف ان کے لیے جن کی باری نہیں ہوتی۔

اس کھیل کا طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص کی باری ہوتی اور وہ کم جگہ ہو تو دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوجاتا اور 10 سے لے کر سو تک کی گنتی گنتا۔ جتنی زیادہ گنتی رفتار اتنی ہی تیز اور جتنے کم اعداد اسپیڈ اتنی ہی دھیمی۔ بنیادی طور پر اس گیم میں دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ایک "ایمپریس" دوسری "بھنڈا"۔ ایمپریس بغیر ہاتھ لگائے دام دینے والے کو کرنا ہوتا تھا۔ جبکہ بھنڈا پوشیدہ لوگوں کو کرنا ہوتا تھا۔ گاڑیوں کے نیچے، درختوں کے اوپر، موٹر سائیکل کے پیچھے، کیاریوں کے اندر غرض یہ کہ بڑی دلچسپ دلچسپ جگہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی جاتی اور دام دینے والے کو نانی یاد دلائی جاتی ۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا کہ جھنڈ کا جھنڈ ایک ساتھ پکڑنے والے پر حملہ آور ہوجاتا اور بھنڈا کرکے ہی دم لیتا۔

ایک خوش گوار یاد:

یہ کھیل راقم الحروف نے اپنی اکلوتی بڑی ہمشیرہ کے ساتھ گھر میں بھی خوب کھیلا ہے۔ ایک کمرہ، کچن اور لاؤنج ہمارے چھپنے کی جگہیں ہوا کرتی تھیں۔ ڈرائنگ روم اس لیے نہیں کہ وہاں دام دینے والا کھڑا ہوکر چھپنے والے کا انتظار کرتا تھا۔ جب دام میری ہوتی تو دو سے تین منٹ میں ہی بہن کو ڈھونڈلیتا تھا۔ لیکن جب چھپنے کی باری آتی تو ایک مرتبہ میں غیر متوقع طور پر کچن میں رکھی میلا دانی کے اندر چھپ گیا۔ کچن کے ہی پچھلے حصے میں ایک چھوٹی سا دھوبی گارڈ بنا ہوا تھا جہاں کپڑے اور برتن وغیرہ کی دھنائی ۔۔۔۔۔ معاف کیجے گا دھلائی ہو کرتی تھی۔ میلا دانی بھی اسی جگہ ایک طرف سلیقے سے براجمان تھی۔ وہ پہلا دن تھا جب میں بہت مشکل سے پکڑ میں آیا ۔ مگردوسری مرتبہ تو حد ہی کردی۔ میلا دانی سے بھی زیادہ مشکل جگہ ڈھونڈنے کے کے چکر میں ایک دھماکے دار آئیڈیا ذہن میں آیا۔

ان دنوں گھر میں جو فریج موجود تھا وہ الماری کی طرح لمبائی میں جانے کے بجائے ٹیبل کی طرح چوڑا ئی میں نکلتا تھا۔ صبح صبح ڈیپ فریزر والے خانے کی صفائی کرائی گئی تھی اور وہ 99٪ خالی تھا۔ میں نے اپنی دبلی پتلی جسامت ا فائدہ اٹھایا اور ڈیپ فریزر میں گھس گیا۔ طویل تلاش کے باوجود جب بہن مجھے ڈھونڈ نہ پائی تو میں خود ہی اندر سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا اتفاق سے بہن ڈیپ فریزر کے ساتھ ہی مجھے تلاش کرنے کے لیے گہری سوچ میں کھڑی تھیں۔ میں جیسے ہی "بھاں" کرتا ہوا باہر نکلا بہن کے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی اور اس کے اگلے ہی لمحے ہم دونوں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ جب شام میں امی کو یہ بات بتائی تو ہم پر ایک بار پھر سے ہنسی کا دورہ طاری ہوگیا۔

4 کھوکھو:

یہ بھی بہت مزے دار کھیل تھا۔ نجانے کیوں اس کھیل کا نام سن کر مجھے ہمیشہ ایف ایم پر سنا ہوا ایک گانا یاد آجاتا ہے۔ (شاید وحید مراد پر فلمایا گیا تھا) جبکہ دونوں میں کوئی مطابقت نہیں ہے، لیکن سوچوں پر کسی کا پہرہ بھی تو نہیں ہے۔ چناں چہ کھیل کا تعارف دینے سے پہلے آپ کو وہ گانا سنادیتے ہیں۔

میرے خیالوں میں چھائی ہے ایک صورت متوالی سی
نازک سی شرمیلی سی معصوم سی بھولی بھالی سی
رہتی ہے وہ دور کہیں
اتا پتا معلوم نہیں
کوکو کورینا کوکو کورینا

شاید کھو کھو اور کوکو میں کسی حد تک لفظی ترادف اس گانے کی یاد دلاتا ہو۔ وگرنہ اس کے علاوہ مزید قیاس آرائیاں کرنے کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہم خود وقتا فوقتا آپ کو بتاتے رہیں گے ۔:)

اس کھیل میں تقریبا دس افراد تو لازمی ہونے چاہیے ۔ پانچ پانچ کی ٹیم کے حساب سے۔ کم بھی ہوسکتے ہیں مگر پھر کھیل میں وہ جان نہیں پڑے گی جو اس کا خاصہ ہے۔ چار کو مناسب فاصلے سے ایک سیدھی قطار میں کھڑا کردیا جاتا اور پانچواں باہر رہتا۔ باقی پانچ دائرے کے مخالف سمت تیار کھڑے ہوتے۔ جیسے ہی پانچواں کھلاڑی بھاگنا شروع کرتا۔ پوری ٹیم دائرے کے گرد سر پٹ دوڑ لگادیتی۔ پکڑنے والا بیچ کی لکیر پھلانگ نہیں سکتا تھا۔ لیکن یہ سہولت بھاگنے والوں کو میسر ہوتی تھی۔ چناں چہ پکڑنے والا ریسلنگ کی طرح دائرے کی سیدھ میں کھڑے اپنے باقی ساتھیوں کو پشت سے"کھو " کہتے ہوئے اس کی جگہ پر کھڑا ہوجاتا اور پھر پکڑنے کی باری اس کی ہوتی۔ ایسا اس صورت میں ہوتا جب بھاگنے والا اس کی گرفت سے دور ہوگیا ہو یا پھر پکڑنے والے کا بھاگ بھاگ کر سانس پھول گیا ہو۔ جب سب آؤٹ ہوجاتے تو پھر اگلے فریق کے بھاگنے کی باری ہوتی۔

5 سیب سیب:

بہت ہی مشکل گیم سمجھا جاتا ہے اور یقینا ہے بھی۔ اس کے لیے دو دیواروں کا ہونا ضروری تھا۔ ایک دیوار پر تین چار بچے کھڑے ہوتے اور دوسری سامنے والی دیوار پر بھی اتنی ہی تعداد میں مختلف فاصلے سے فیلڈرز سیب کو پکڑنے کے لیے تیار رہتے۔ کرنا یہ ہوتاکہ سب کو چکما دیتے ہوئے دوڑ کر سامنے والی دیوار کو ہاتھ لگانا ہوتا تھا ۔ اس طرح آدھا سیب مکمل ہوجاتا۔ پھر اپنی دیوار پہ واپس آنا ہوتا تو پورا سیب مکمل ہوجاتا۔ اس میں کوئی بونس نہیں ملتا تھا۔ چاہے کوئی کھلاڑی آدھا سیب بنائے یا پورا۔ یا پہلے ہی پھیرے میں آؤٹ ہوجائے، بہر صورت باری ایک ہی ہوتی تھی۔ اسے کرکٹ کی طرح کا ایک کھیل کہہ سکتے ہیں جس میں آپ کو ٹارگٹ اچیو کرنا ہوتا ہے۔ شروع میں جتنا سیب بنایا جاتا بعد میں پکڑنے والی پارٹی کو اس سے زیادہ بنانا ہوتا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ دونوں فریق آدھا سیب بھی نہ بناسکے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میچ ڈرا ہوجاتا۔ المختصر سب سے بچ بچا کر سامنے والی دیوار کو ہاتھ لگانا بہت مشکل کام ہوتا تھا۔

6 پٹھو واڑی یا پٹھو گرم:

بہت مزے دار کھیل! چھوٹے بڑے سطحی پتھروں کا ایک مینار بنایا جاتا اور ٹینس بال سے نشانہ لے کر مارا جاتا۔ ایک نشانے باز تین مرتبہ مار سکتا تھا۔ نشانہ لگ جاتا تو پتھر ادھر ادھر بکھر جاتے۔اب نشانہ مارنے والی ٹیم کو بال کی ضرب سے بچتے ہوئے پتھروں کا مینار پھر سے تعمیر کرنا ہوتا تھا۔ اگر بال کسی کو کو لگ گئی تو اگلے فریق کی باری۔ کسی کو نہ لگی اور پتھر پورے کرلیے تو پھر سے اسی ٹیم اور اسی نشانہ باز کی باری۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بال پتھروں سے ٹکراتی اور سیدھا "وکٹ کیپر" کے ہاتھوں میں جاتی۔ ایسی صورت حال میں بھی پوری ٹیم آؤٹ ہوجاتی ہے۔ اس کھیل میں زیادہ سے زیادہ چھ افراد کا ہونا ضروری ہے۔ ویسے تو چار افراد میں بھی کھیلا جاسکتا ہے مگر اتنے کم افراد میں انجوائے منٹ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

7 ٹِپ ٹَاپ:

پلکا پھلکا سا گیم۔ برف پانی کی طرز کا کھیل کہہ سکتے ہیں۔ دو فرد پکڑنے والے۔ باقی سب بھانگے والے۔ بس فرق اتنا ہے کہ جو پکڑا جاتا اس کو کھڑا کرنے کے لیے کوئی خاص جگہ نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ اس کو کھڑا رہنا ہی نہیں ہوتا تھا۔ بھاگنے والوں کو پکڑنے کے لیے " ٹاپ" کا لفظ استعمال کیا جاتا۔ جیسے ہی کوئی پکڑ میں آتا ادھر ہی اپنی جگہ پر پنجوں کے بل یا جیسے چاہے بیٹھ جاتا۔ پنجوں پر بیٹھنے کو فوقیت اس لیے دی جاتی کہ ایک تو اس طرح کپڑے خراب نہیں ہوتے تھے دوسرا یہ کہ اگر کسی طرح پھر بحال ہوگئے تو فورا اٹھ کر بھاگنے میں آسانی ہوتی۔ پہلا اس کی نگرانی کرتا اور دوسرا باقیوں کو پکڑتا رہتا۔ جواپنے ساتھی کو چھڑانا چاہتا اس کو اسے ہاتھ لگا کر "ٹپ" کہنا پڑتا تبھی وہ آزاد ہوتا ورنہ سب کے پکڑ ےجانے کے بعد جو دو پہلے ٹاپ ہوئے تھے باری انہی کی ہوتی۔

8 آنکھ مچولی:

بہت پر لطف اور معروف کھیل۔ عموما گھر کے کسی چھوٹے کمرے میں سب کزنز کھیلا کرتے ہیں۔ کسی ایک کی آنکھ میں پٹی باندھ کر دوسروں کو بغیر دیکھے پکڑا جاتا ہے۔ پھر جو ہاتھ لگ جائے باری اس کی ہوتی ہے۔ پکڑم پکڑائی کی طرح۔ اس دوران یہ چیک کرنے کے لیے کہ اسے سب نظر تو نہیں آرہا ، آنکھوں پر دوپٹہ یا پٹی باندھ کر انگلیوں کے ذریعے سوال کیا جاتا کہ یہ کتنے ہیں؟ کبھی کوئی ایمان دار سچ بتادیتا کہ سب نظر آرہا ہےاور کبھی کوئی غلط ہندسہ بتاکر اپنی پوزیشن مستحکم رکھتا۔

اس کھیل میں بڑے رومانوی مناظر بھی وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس کی تفصیل میں ہم ہرگز نہیں جائیں گے۔ لیکن اگر کسی کو جاننے کا بہت اشتیاق ہو تو ہندی فلموں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

--------------------------
یہ کچھ یاد گار اور مزے دار کھیل تھے جو محض حافظے کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں۔ اس لیے ان میں غلطی کا یقینی امکان ہے۔ لفظوں میں بھی اور کھیل کے طریقہ کار پر بھی۔

اب ایک کھیل یہ کھیلتے ہیں کہ اگر ان کھیلوں میں کوئی کمی بیشی یا کہیں کوئی پہلو تسلی بخش نہیں ہے یا کوئی غلطی ہے جس سے آپ واقف ہوں تو اس کی تصحیح کیجے اور اس کے علاوہ جو کھیل آپ نے اپنے بچپن میں گھر کے اندر یا باہر کھیلے ہیں ان کا بھی ذکر کیجے۔

اگلی نشست میں کوشش کی جائے گی کہ "انڈور گیمز" مثلا اکڑ بکڑ بمبے بو، چیل اڑی کوا اڑا وغیرہم پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔ :D

تب تک کے لیے اجازت دیجے اللہ حافظ! :)
 
آخری تدوین:
بہت زبردست عبد الرحمن بھائی ۔

اسی طرح کی عارف جمیل صاحب کی ایک تحریر ملی شئر کرنے کی جرات کر رہا ہوں


روایتی دیسی کھیل جو تہواروں کا بھی حصہ رہے

10160_85800747.jpg

عارف جمیل
دُنیا میں جہاں کرکٹ، فُٹ بال،ہاکی،والی بال،باسکٹ بال اور ایتھلیٹکس وغیرہ اہم ترین کھیل ہیں وہاں برصغیر میں ایک دور میں بہت سے ایسے کھیل بھی اہم رہے ہیں جو گلی کوچوں میں تقریباً ہر بچے نے کھیلے ہیں ۔ آج کے بچے جدید دور کی کمپیوٹر گیمز کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں جن کے متعلق مُثبت منفی دونوں رویئے زیر ِبحث ہیں ۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی کے جن گلی کوچوں کے چند اہم روایتی دیسی کھیلوں کا ذکر کیا جائے گا، اُن کے بارے میں بھی زیادہ تر یہی رائے رہی۔ یعنی ایک طبقہ بالکل پسند نہیں کرتا تھا کہ اُن میں سے کچھ کھیل اُنکے بچے کھیلیں ۔بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُن کھیلوں سے ذہنی ،جسمانی دونوں ورزشیں ہو تی تھیں۔جبکہ کمپیوٹر گیمز کھیلنے والے بچے ذہنی طور پر کتنے ہی ذہین سمجھے جا رہے ہو ں جسمانی طور چاک و چوبند کم ہی ہیں۔
گلی ڈانڈا:بڑے میدان کا کھیل ہے۔ لیکن آج تک اسکو گلی کوچے کے معیار سے زیادہ تصور نہیں کیا گیا۔اس میں ایک 2فُٹ سائز کا لکڑی کا ڈنڈا ہوتا ہے اور کم و بیش 6انچ کی لکڑی کی گول گلی جودونوں طرف سے نوکدار تراشی ہوئی ہوتی ہے۔آغاز میں زمین میں ایک راب (یعنی کھودکر) بنا کر کھیل شروع کیا جاتا ہے اور جو کھلاڑی اُس مرحلے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ پھر جو کھیل کھیلتا ہے اُس ڈنڈے سے گلی کو ٹُل لگانا کہتے ہیں ۔جس میں گلی کئی کئی میٹرز دُور اُڑتی ہو ئی جاتی ہے ۔ٹُل لگانا کے بعد وہ ڈنڈے کو زمین پر رکھ دیتا ہے اور مخالف کھلا ڑی یا تو جہاں گلی گرتی ہے وہاں سے اُٹھا کر زمین پر رکھے ہوئے ڈنڈے کا نشانہ لیکر اُسکو مارتا ہے تاکہ اُس ڈنڈے کو لگنے سے اُس کھلاڑی کی باری ختم ہو جائے یاگلی کو کیچ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔آج بھی کئی ایسے چہرے یا ماتھے نظر آئیں گے جن پر گلی لگنے سے چوٹ کا نشان ہے۔
بنٹے و اخروٹ: شاید ہی کوئی کوچہ ہو جہاں نہ کھیلا گیا ہو۔گو کہ بچوں کے والدین اسکو ناپسند کرتے ہیں لیکن بچے آنکھ بچا کر پھر بھی کھیل ہی لیتے ہیں۔ اخروٹ تو ایک خشک پھل ہی ہے۔ لیکن بنٹے کانچ کی بنی ہوئی گول شکل کی رنگ برنگی موٹی گولیاں ہو تی ہیں۔جنکو کھیل کی ترتیب کے مطابق زمین میں ایک بل(چھوٹا سا سوراخ)بنا کر کھیلا جاتا ہے۔ کم و بیش تین میٹر کے فاصلے سے اخروٹ یا بنٹوں کوبل کی طرف پھینکا جاتا ہے اور پھر ایک کھلاڑی اپنی مقررہ جگہ پر کھڑا ہو کر اُن زمین پر پھینکے اخروٹ یا بنٹوں کا نشانہ لگاتا ہے۔بل میں ڈل جانا یا نشانہ لگ جاناہی کامیابی ہے۔
لٹو کے کھیل :اس کھیل میں لکڑی یا پتھر کا ایک ایسا تراشا ہواگول سا دو سے تین انچ کا لٹو ہو تا ہے جس کا اوپر کا حصہ چوڑا اور نیچے کا حصہ باریک ہو تا چلا جاتا ہے اور اُس باریک حصے میں سے لوہے کی کیل نما سلاخ نکلی ہوتی ہے جس پر اُس نے گُھومنا ہو تا ہے۔ لٹو کے اوپر سے نیچے تک کے حصے کے درمیان میں انتہائی فنکارانہ انداز میں ایک باریک ڈوری لپٹنے کی جگہ تراشی گئی ہوتی ہے جس پر ڈوری لپیٹ کر کھیل کا آغاز کیا جاتا ہے۔ بس پھر لٹو چلانے کا مقابلہ شروع ہو تا ہے اور خوبصورت رنگوں والے لٹوکی ڈوری کھینچ کر نوکدار کیل نما سلاخ سے دوسرے چلتے ہوئے لٹو کو مار کر گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس دوران زمین پر چلتے ہوئے لٹو کو ہاتھ پر بھی اس طرح اُٹھایا جاتا ہے کہ وہ گھومتا ہی رہے ۔
پیٹھو گول گرم اور شوٹنگ:ٹینس کے سات ربڑی گیند سے کھیلے جاتے ہیں۔بچے پہلے چند چپٹی نما ٹھکریاں (پتھر) جمع کر کے اُنکو ایک دوسرے کے اُوپر تلے رکھتے ہیں اور پھر اپنی باری پر بچہ گیند سے اُنکو گرانے کی کوشش کرتا ہے۔اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اب اُسکی جیت اس ہی میں ہے کہ وہ دوبارہ اُسکو ہی ترتیب سے اُوپر تلے رکھے ۔لیکن اب یہ اتنا آسان نہیں ہو تا کیونکہ مخالف بچوں نے اُسکو ناکام کرنے کیلئے گیند زور سے اُسکو مارنا ہوتا ہے۔ شوٹنگ بھی اس ہی نوعیت کا کھیل ہے جس میں دونوں طرف کے ہم عمر بچے ایک دوسرے کے مخالف ٹیمیں ترتیب دے کر گیند اتنی زور زور سے ایک دوسرے کو مارتے ہیں کہ پھر جسکو لگا جائے تو یہ کہے بغیر کوئی نہیں رہتا " سیکا" واقعی گرم تھا۔
لوکن میٹی اور پکڑن پکڑائی:شاید ہی کو ئی ایسا ہو جس نے بچپن میں نہ کھیلی ہو۔لوکن میٹی میں کوئی ایک بچہ کہیں چُھپ جاتا ہے اور باقی بچے اُس کو تلاش کرتے ہیں۔اگر وہ اُسکو ڈھونڈ لیتے ہیں تو پھر وہ شور اٹھتاہے کہ گھر کے سوئے ہوئے افراد بھی جاگ جاتے ہیں۔ پکڑن پکڑائی بھی کچھ اس ہی قسم کا کھیل ہے جس میں ایک دوسرے کو باری باری پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ پکڑے جانے پر دوسرے کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سٹاپو (کِڑی کاڑہ):زیادہ تر بچیوں سے سے منسلک کھیل ہے۔لیکن موقعہ ملنے پر لڑکے بھی کھیل لیتے ہیں ۔خاص طور اپنی بہنوں کے ساتھ۔اس میں پانچ مستطیل خانے زمین پر بنائے جاتے ہیں جن میں سے تیسرا اور پانچواں خانہ درمیان میں لائن لگا کر دو خانوںمیں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ پھر پتھر کی ایک ٹھکری پکڑ کر خانوں میں بالترتیب پھینک کر کچھ اسطرح کھیل کھیلا جاتا ہے کہ ایک ٹانگ سے اُچھلتے ہوئے جاکر اُس ٹھکری کو اُٹھانا ہوتا ہے۔ بس اگر اس دوران لائن پر پائوں آ گیا تو باری ختم۔
کوکلا چھپاکی :جمعرات آئی ہے ،جوآگے پیچھے دیکھے اُسکی شامت آئی ہے، بھی بچیوں کا کھیل ہے جو عام طور پر سہیلیوں کے صحن میں کھیلا جاتا ہے۔ تما م بچے بچیاں ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اُن میں سے منتخب ایک بچہ یا بچی ایک پراندہ نما موٹے کپڑے کی رسی لیکر اُن کے ارد گرد چکر لگاتے ہوئے بار بار یہ جُملہ بولتاہے اور اگر کوئی جملے کے برخلاف حرکت کر بیٹھتا ہے تو پھر واقعی اُسکی شامت آ جاتی ہے۔
گُڈا اور گڑیا کی شادی: بھی بچیوں کا پسندیدہ کھیل رہا ہے۔ بچیاں بڑے شوق سے بڑوں کی شادیوں کی طرز پر یہ کھیل ترتیب دیتی ہیں۔یعنی پہلے دونوں طرف سے سہیلیوں کے درمیان دونوں کا رشتہ اور اُنکی شادی کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے اور پھر گُڈا اور گڑیا کیلئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت کپڑوں کے ٹکڑے (پٹولے) بڑے اہتمام سے سلائے جاتے ہیں۔ یعنی دولہا دلہن کا لباس۔ سہیلیاں بھی رنگ برنگے لباس پہن کر آ تی ہیں اور باقاعدہ ایک رُخصتی کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔
پتنگ بازی:اس کا شوق بچپن سے ہو جائے تو پھر لڑکپن میں عروج پر دیکھنے کو ملتا ہے۔بلکہ گزشتہ چند سال پہلے تک تو بسنت کے تہوار پر خواتین نے بھی اس شوق کو باقاعدہ پتنگیں اُڑا کر پورا کیا تھا۔اس میں مختلف سائز کی گُڈی کاغذکی رنگ برنگی پتنگیں بنائی جاتی ہیں اور پھر انکو ہوا میں اُڑانے کیلئے ایک مایا لگی بہترین ڈور استعمال کی جاتی ہے ۔ ڈور کے معیار کا تعین دھاگے اور اُس پر لگے اُس مانجھے سے ہوتا ہے جس میں شیشہ بھی باریک پیس کا ملایا جاتا ہے اور نرم کرنے کیلئے کبھی انڈا بھی ۔تاکہ ہوا میں کاٹ تیز بھی ہو ہاتھ بھی بچ جائیں ۔ لیکن پھر بھی جذبات میں آپس میں پتنگیں کاٹنے کے مقابلے کے دوران اُس ڈور سے ہاتھ کی اُنگلیوں پر اتنے چیرے آجاتے ہیں کہ ہاتھ خون سے بھر جاتے ہیں لیکن پتنگ کاٹ کر" بو کاٹا" کی آواز لگانے کا سرُور اُس تکلیف کو بھی بُھلا دیتا ہے۔ ہاں جسکی پتنگ کٹ جاتی ہے وہ ہاتھوں میں تکلیف کے باوجود کہے بغیر نہیں رہتا "پیچا" زبردست تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے کھیل اس ہی طرز پر کھیلے جاتے رہے ہیں جو اب کلچر کا حصہ کم ہی رہ گئے ہیں جن میں بند کِلا،6ٹینیں وغیرہ شامل ہیں۔ ٭…٭…٭
-
 
گلی ڈانڈا:بڑے میدان کا کھیل ہے۔ لیکن آج تک اسکو گلی کوچے کے معیار سے زیادہ تصور نہیں کیا گیا۔اس میں ایک 2فُٹ سائز کا لکڑی کا ڈنڈا ہوتا ہے اور کم و بیش 6انچ کی لکڑی کی گول گلی جودونوں طرف سے نوکدار تراشی ہوئی ہوتی ہے۔آغاز میں زمین میں ایک راب (یعنی کھودکر) بنا کر کھیل شروع کیا جاتا ہے اور جو کھلاڑی اُس مرحلے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ پھر جو کھیل کھیلتا ہے اُس ڈنڈے سے گلی کو ٹُل لگانا کہتے ہیں ۔جس میں گلی کئی کئی میٹرز دُور اُڑتی ہو ئی جاتی ہے ۔ٹُل لگانا کے بعد وہ ڈنڈے کو زمین پر رکھ دیتا ہے اور مخالف کھلا ڑی یا تو جہاں گلی گرتی ہے وہاں سے اُٹھا کر زمین پر رکھے ہوئے ڈنڈے کا نشانہ لیکر اُسکو مارتا ہے تاکہ اُس ڈنڈے کو لگنے سے اُس کھلاڑی کی باری ختم ہو جائے یاگلی کو کیچ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔آج بھی کئی ایسے چہرے یا ماتھے نظر آئیں گے جن پر گلی لگنے سے چوٹ کا نشان ہے۔

ہے نا یار
 
گلی ڈنڈا


گلی ڈنڈا
گلی ڈنڈا پنجاب اور برصغیر کے کئی دوسرے علاقوں میں لڑکوں کا کھیل ہے۔ یہ ایک ڈنڈے اور ایک گلی کی مدد سے کھیلا جاتا ہے اور یہ کھلے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں۔
ڈنڈا کسی بھی جسامت کا ہو سکتا ہے۔ گلی بھی ڈنڈے کا ایک علیحدہ چھوٹا ٹکڑا ہوتا ہے جس کی لمبائی 9 انچ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ گلی کے دونوں سرے تراشے ہوئے اور نوکدار ہوتے ہیں۔
اس کھیل میں گلی کے نوکدار حصے پر ڈنڈے سے مارا جاتا ہے گلی اوپر کو اچھلتی ہے اس اچھلتی ہوئی گلی کو پھر زور سے ڈنڈا مارتے ہیں جس کے نتیجے میں گلی بہت دور چلی جاتی ہے اگر کوئی مخالف کھلاڑی اس گلی کو ہ۔وا میں دبوچ لے یا اسے ایک خاص جگہ پر پھینک دے تو ڈنڈے سے گلی کو مارنے والے لڑکے کی باری چلی جاتی ہے اور اگلے کھلاڑی کی باری آجاتی ہے۔


دُنیا کے ہر ملک میں بے شمار کھیل ایسے بھی کھیلے جاتے ہیں، جو گلی،محلوں تک ہی محدود ہوتے ہیں اور انہیں حکومتی سطح پر کوئی اہمیت نہیں دی جاتی،لیکن ان کھیلوں کا ایک پس منظر ہوتا ہے، گہری وابستگی ہوتی ہے، جن کی وجہ سے یہ عوام میں صدیوں اپنی جڑیں مضبوط رکھتے ہیں ۔ زیادہ تر کھیل بزرگوں کے ایجاد کردہ ہیں، انہوں نے یہ کھیل اپنے بچوں کو سکھائے، ان کے بچوں نے اپنے بچوں کو، اس طرح دیکھا جائے تو یہ کھیل سینہ بہ سینہ آگے بڑھتے رہے اور ان کی مقبولیت آج بھی گائوں، دیہات او رچھوٹے شہروں میں، جہاں لوگ ، آج بھی اپنی تہذیب ، تاریخ سے جڑے ہیں پہلے دن کی طرح قائم و دائم ہے، البتہ شہروں میں لوگ انہیں بُھلا چکے ہیں۔ گلّی محلے کی سطح کے ان کھیلوں میں سے جو کھیل بہت مقبول ہوئے، ان میں پٹھوگرم، وانجو، گلّی ڈنڈا، کبڈی یا کوڈی، پہل دوج، لنگڑی پالا، کھوکھو، گلاشوٹ، وینی پکڑنا اور چھڑانا، اونچ نیچ، پنجہ لڑانا، رسی کودنا، گڑمی نہانا، کِکلی، قیدی قیدی، برف پانی، گھوڑی کھیلنا، دوڑ، پتا چور، نمک چور، کوڑاجمال شاہی نمایاں ہیں۔ گُلّی ڈنڈا یا گِلّی ڈنڈا کو بعض جگہوں پر بہت سے نام دیئے گئے ہیں ، جیسے تھل اور چولستان میں اسے ’’ڈیٹی ڈناں‘‘ یا ’’گبیٹی ڈناں‘‘ کہتے ہیں۔یہ کھیل بھی زمانۂ قدیم سے برصغیر پاک وہند کے گلی کوچوں، محلے محلے میں کھیلا جارہاہے۔ خاص طور پر دیہات میں تو بچوں اور نوجوانون کا پسندیدہ کھیل ماناجاتا ہے۔ البتہ شہری علاقوں میں جب سے فٹ بال، ہاکی او رکرکٹ مقبول ہوئی ، بچے اور نوجوانوں نے اسے دیس نکالا دے دیا۔ گُلّی ڈنڈا بھاگ دوڑ والا دل چسپ ورزشی کھیل ہے۔ اس کے لیے کھلے میدان کا ہونا ضروری ہے۔ کھیل دن کی روشنی میں کھیلا جاتا ہے۔ کھیلنے کے لیے ایک گُلّی اور ایک ڈنڈے کی ضرورت پڑتی ہے۔ گُلّی لکڑی کے قریباً پانچ چھ انچ کے ایک ٹکڑے پر محیط ہوتی ہے، جس کا قطر دو، تین انچ کے قریب ہوتا ہے۔ گلی کے دونوں سرے تیز دھار تیشے یا دوسری چیز سے تراش کر نوک دار بنالیے جاتے ہیں، جب کہ ڈنڈا قریباً آدھا میٹر لمبا ہوتا ہے اور اس کا قطر ایک سے ڈیڑھ انچ ہوتا ہے۔ کھیل شروع کرنے سے پہلے کھیل کے میدان میں ایک چھوٹا سا نالی نما گڑھا کھودا جاتا ہے جس کی چوڑائی ڈیڑھ انچ اور لمبائی 3 سے 4 انچ ہوتی ہے۔، گڑھا گُلّی کی شکل سے ملتا جلتا ہے، گلی اس یگڑھے پر رکھ کر ڈنڈے کی مدد سے اُچھالی جاتی ہے۔ کھیل میں دویا دو سے زائد کھلاڑی حصّہ لے سکتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے اہل ہونے کا کوئی معیار مقرر نہیں، تاہم مضبوط جسم کا مالک ، زور دار ٹل لگانے او رگلی کو کیچ کرنے والے کھلاڑی کو سب اہمیت دیتے ہیں۔ اگر کھیل ٹیم کی صورت کھیلا جائے تو دونوں ٹیموں میں کھلاڑیوں کی تعداد برابر ہوتی ہے، مثلاً ایک طرف پانچ کھلاڑی ہیں، تو دوسری طرف بھی پانچ ہونے ضروری ہیں۔ ایک ٹیم جب کھیل شروع کرتی ہے تو اس کا پہلاکھلاڑی گُلّی کو گلی نما گڑھے میں رکھ کر ڈنڈے کی مدد سے زور سے اُچھالتا ہے۔ کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ گُلّی اُچھل کر دور جائی تاکہ مخالف کھلاڑی ڈنڈے کا دُرست نشانہ نہ لگاسکیں۔ گُلّی پھینکنے کے بعد گلی نما گڑھے پر ڈنڈا رکھ دیا جاتا ہے اور مخالف کھلاڑی گلی سے ڈنڈے کا نشانہ لے کر اس پر گلی مارتا ہے۔ گلی اگر ڈنڈے پر لگ جائے تو کھلاڑی آئوٹ ہوجاتا ہے او رپھر دو سرے کی باری آتی ہے، لیکن اگر گلی ڈنڈے پر نہ لگے تو پھر پہلی باری لینے والا کھلاڑی ڈنڈے سے ٹل لگا کر گلی کو گڑھے کے مقام سے دور پھینکتا ہے۔ اس کے پاس مارنے کے لیے تین شاٹس یا تین ٹل ہوتے ہیں۔ پہلا دوسرا ٹل ناکام ہوجائے تو تیسرا آخری ہوتا ہے۔یہ بھی نہ لگے تو کھلاڑی آئوٹ ہوجاتاہے اور اگر ٹل لگتے رہیں تو گلی پر ڈنڈا مار کر دور پھینکنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر مخالف کھلاڑی ٹل مارنے پر گُلّی کو کیچ کرلیں تو تب بھی کھلاڑی آئوٹ قرار پاتا ہے اور پھر دوسرا باری لیتا ہے۔ ٹل لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ کھلاڑی ڈنڈے کی مدد سے گُلّی کے نوک دار سرے پر ہلکی سی ضرب لگاتا ہے، جس سے گلی ہوا میں اُچھلتی ہے۔اب وہ کھلاڑی بڑی تیزی سے ہوا میں اُڑتی گلی کو زور سے ضرب لگا کر دور پھینکتا ہے۔گلی کتنی دور جاکر گرتی ہے، اس کا انحصار کھلاڑی کے بازوئوں کی طاقت اورلگائی گئی ضرب پر ہوتا ہے، جتنی مہارت اور قوت سے ضرب لگائی جائے، گلی اس قدر دور جاکر گرتی ہے۔ گائوں دیہات میں یہ ایک مقبول کھیل ہے اور بہت سے گائوں دیہات میں گلی ڈنڈا کلب بن گئے ہیں، جن کے دوسری ٹیموں سے مقابلے ہوتے ہیں۔ اس کھیل سے جسم مضبوط ہوتا ہے اور کھلاڑی چاق چوبند رہتا ہے،کیوں کہ کھلے میدان میں بھاگ دوڑ سے ایک طرح کی ورزش ہوتی ہے۔ یہ مسرت و شادمانی کا کھیل ہے، تمام کھلاڑی کھیل سے لُطف اٹھاتے ہیں، آپس میں ہلّاگلّاہوتا ہے اور سب دلی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ -
 
دل کے ایوانوں میں شور مچاتی ہے
دل میں بھی پارٹیشن کردی ہے کیا؟ ادھربھی ایوان وسینٹ! :)

دبلی پتلی جسامت ا فائدہ اٹھایا اور ڈیپ فریزر میں گھس گیا۔
بھنڈا کرنےجب نکلے ہوگے توقلفی شریف بن گئےہوگئے نہ!:D
مجھ جھٹ نے تونام ہی پہلی دفعہ سنا:angel3:
پڑھ کراتنا مشکل لگ رہاہے،پریکٹیکل میں کتنا درد سرہوگا!:confused2:
لیکن اس کی تفصیل میں ہم ہرگز نہیں جائیں گے۔ لیکن اگر کسی کو جاننے کا بہت اشتیاق ہو تو ہندی فلموں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
نسخہ کچھ خطرناک تجویز نہیں کیا؟:grin1:
ادھر کھیل کم اورتماشہ زیادہ ملےگا!:filmstrip:
 
بہت خوب جناب۔ بچپن ایک دم سے آنکھوں کے آگے آ گیا۔
اگلی نشست میں کوشش کی جائے گی کہ "انڈور گیمز" مثلا اکڑ بکڑ بمبے بو، چیل اڑی کوا اڑا وغیرہم پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔ :D
'یسو پنجو' کا ذکر بھی کر دی جیے گا
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت زبردست عبد الرحمن بھائی ۔

اسی طرح کی عارف جمیل صاحب کی ایک تحریر ملی شئر کرنے کی جرات کر رہا ہوں


روایتی دیسی کھیل جو تہواروں کا بھی حصہ رہے

10160_85800747.jpg

عارف جمیل
دُنیا میں جہاں کرکٹ، فُٹ بال،ہاکی،والی بال،باسکٹ بال اور ایتھلیٹکس وغیرہ اہم ترین کھیل ہیں وہاں برصغیر میں ایک دور میں بہت سے ایسے کھیل بھی اہم رہے ہیں جو گلی کوچوں میں تقریباً ہر بچے نے کھیلے ہیں ۔ آج کے بچے جدید دور کی کمپیوٹر گیمز کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں جن کے متعلق مُثبت منفی دونوں رویئے زیر ِبحث ہیں ۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی کے جن گلی کوچوں کے چند اہم روایتی دیسی کھیلوں کا ذکر کیا جائے گا، اُن کے بارے میں بھی زیادہ تر یہی رائے رہی۔ یعنی ایک طبقہ بالکل پسند نہیں کرتا تھا کہ اُن میں سے کچھ کھیل اُنکے بچے کھیلیں ۔بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اُن کھیلوں سے ذہنی ،جسمانی دونوں ورزشیں ہو تی تھیں۔جبکہ کمپیوٹر گیمز کھیلنے والے بچے ذہنی طور پر کتنے ہی ذہین سمجھے جا رہے ہو ں جسمانی طور چاک و چوبند کم ہی ہیں۔
گلی ڈانڈا:بڑے میدان کا کھیل ہے۔ لیکن آج تک اسکو گلی کوچے کے معیار سے زیادہ تصور نہیں کیا گیا۔اس میں ایک 2فُٹ سائز کا لکڑی کا ڈنڈا ہوتا ہے اور کم و بیش 6انچ کی لکڑی کی گول گلی جودونوں طرف سے نوکدار تراشی ہوئی ہوتی ہے۔آغاز میں زمین میں ایک راب (یعنی کھودکر) بنا کر کھیل شروع کیا جاتا ہے اور جو کھلاڑی اُس مرحلے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ پھر جو کھیل کھیلتا ہے اُس ڈنڈے سے گلی کو ٹُل لگانا کہتے ہیں ۔جس میں گلی کئی کئی میٹرز دُور اُڑتی ہو ئی جاتی ہے ۔ٹُل لگانا کے بعد وہ ڈنڈے کو زمین پر رکھ دیتا ہے اور مخالف کھلا ڑی یا تو جہاں گلی گرتی ہے وہاں سے اُٹھا کر زمین پر رکھے ہوئے ڈنڈے کا نشانہ لیکر اُسکو مارتا ہے تاکہ اُس ڈنڈے کو لگنے سے اُس کھلاڑی کی باری ختم ہو جائے یاگلی کو کیچ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔آج بھی کئی ایسے چہرے یا ماتھے نظر آئیں گے جن پر گلی لگنے سے چوٹ کا نشان ہے۔
بنٹے و اخروٹ: شاید ہی کوئی کوچہ ہو جہاں نہ کھیلا گیا ہو۔گو کہ بچوں کے والدین اسکو ناپسند کرتے ہیں لیکن بچے آنکھ بچا کر پھر بھی کھیل ہی لیتے ہیں۔ اخروٹ تو ایک خشک پھل ہی ہے۔ لیکن بنٹے کانچ کی بنی ہوئی گول شکل کی رنگ برنگی موٹی گولیاں ہو تی ہیں۔جنکو کھیل کی ترتیب کے مطابق زمین میں ایک بل(چھوٹا سا سوراخ)بنا کر کھیلا جاتا ہے۔ کم و بیش تین میٹر کے فاصلے سے اخروٹ یا بنٹوں کوبل کی طرف پھینکا جاتا ہے اور پھر ایک کھلاڑی اپنی مقررہ جگہ پر کھڑا ہو کر اُن زمین پر پھینکے اخروٹ یا بنٹوں کا نشانہ لگاتا ہے۔بل میں ڈل جانا یا نشانہ لگ جاناہی کامیابی ہے۔
لٹو کے کھیل :اس کھیل میں لکڑی یا پتھر کا ایک ایسا تراشا ہواگول سا دو سے تین انچ کا لٹو ہو تا ہے جس کا اوپر کا حصہ چوڑا اور نیچے کا حصہ باریک ہو تا چلا جاتا ہے اور اُس باریک حصے میں سے لوہے کی کیل نما سلاخ نکلی ہوتی ہے جس پر اُس نے گُھومنا ہو تا ہے۔ لٹو کے اوپر سے نیچے تک کے حصے کے درمیان میں انتہائی فنکارانہ انداز میں ایک باریک ڈوری لپٹنے کی جگہ تراشی گئی ہوتی ہے جس پر ڈوری لپیٹ کر کھیل کا آغاز کیا جاتا ہے۔ بس پھر لٹو چلانے کا مقابلہ شروع ہو تا ہے اور خوبصورت رنگوں والے لٹوکی ڈوری کھینچ کر نوکدار کیل نما سلاخ سے دوسرے چلتے ہوئے لٹو کو مار کر گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس دوران زمین پر چلتے ہوئے لٹو کو ہاتھ پر بھی اس طرح اُٹھایا جاتا ہے کہ وہ گھومتا ہی رہے ۔
پیٹھو گول گرم اور شوٹنگ:ٹینس کے سات ربڑی گیند سے کھیلے جاتے ہیں۔بچے پہلے چند چپٹی نما ٹھکریاں (پتھر) جمع کر کے اُنکو ایک دوسرے کے اُوپر تلے رکھتے ہیں اور پھر اپنی باری پر بچہ گیند سے اُنکو گرانے کی کوشش کرتا ہے۔اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اب اُسکی جیت اس ہی میں ہے کہ وہ دوبارہ اُسکو ہی ترتیب سے اُوپر تلے رکھے ۔لیکن اب یہ اتنا آسان نہیں ہو تا کیونکہ مخالف بچوں نے اُسکو ناکام کرنے کیلئے گیند زور سے اُسکو مارنا ہوتا ہے۔ شوٹنگ بھی اس ہی نوعیت کا کھیل ہے جس میں دونوں طرف کے ہم عمر بچے ایک دوسرے کے مخالف ٹیمیں ترتیب دے کر گیند اتنی زور زور سے ایک دوسرے کو مارتے ہیں کہ پھر جسکو لگا جائے تو یہ کہے بغیر کوئی نہیں رہتا " سیکا" واقعی گرم تھا۔
لوکن میٹی اور پکڑن پکڑائی:شاید ہی کو ئی ایسا ہو جس نے بچپن میں نہ کھیلی ہو۔لوکن میٹی میں کوئی ایک بچہ کہیں چُھپ جاتا ہے اور باقی بچے اُس کو تلاش کرتے ہیں۔اگر وہ اُسکو ڈھونڈ لیتے ہیں تو پھر وہ شور اٹھتاہے کہ گھر کے سوئے ہوئے افراد بھی جاگ جاتے ہیں۔ پکڑن پکڑائی بھی کچھ اس ہی قسم کا کھیل ہے جس میں ایک دوسرے کو باری باری پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ پکڑے جانے پر دوسرے کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سٹاپو (کِڑی کاڑہ):زیادہ تر بچیوں سے سے منسلک کھیل ہے۔لیکن موقعہ ملنے پر لڑکے بھی کھیل لیتے ہیں ۔خاص طور اپنی بہنوں کے ساتھ۔اس میں پانچ مستطیل خانے زمین پر بنائے جاتے ہیں جن میں سے تیسرا اور پانچواں خانہ درمیان میں لائن لگا کر دو خانوںمیں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ پھر پتھر کی ایک ٹھکری پکڑ کر خانوں میں بالترتیب پھینک کر کچھ اسطرح کھیل کھیلا جاتا ہے کہ ایک ٹانگ سے اُچھلتے ہوئے جاکر اُس ٹھکری کو اُٹھانا ہوتا ہے۔ بس اگر اس دوران لائن پر پائوں آ گیا تو باری ختم۔
کوکلا چھپاکی :جمعرات آئی ہے ،جوآگے پیچھے دیکھے اُسکی شامت آئی ہے، بھی بچیوں کا کھیل ہے جو عام طور پر سہیلیوں کے صحن میں کھیلا جاتا ہے۔ تما م بچے بچیاں ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اُن میں سے منتخب ایک بچہ یا بچی ایک پراندہ نما موٹے کپڑے کی رسی لیکر اُن کے ارد گرد چکر لگاتے ہوئے بار بار یہ جُملہ بولتاہے اور اگر کوئی جملے کے برخلاف حرکت کر بیٹھتا ہے تو پھر واقعی اُسکی شامت آ جاتی ہے۔
گُڈا اور گڑیا کی شادی: بھی بچیوں کا پسندیدہ کھیل رہا ہے۔ بچیاں بڑے شوق سے بڑوں کی شادیوں کی طرز پر یہ کھیل ترتیب دیتی ہیں۔یعنی پہلے دونوں طرف سے سہیلیوں کے درمیان دونوں کا رشتہ اور اُنکی شادی کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے اور پھر گُڈا اور گڑیا کیلئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت کپڑوں کے ٹکڑے (پٹولے) بڑے اہتمام سے سلائے جاتے ہیں۔ یعنی دولہا دلہن کا لباس۔ سہیلیاں بھی رنگ برنگے لباس پہن کر آ تی ہیں اور باقاعدہ ایک رُخصتی کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔
پتنگ بازی:اس کا شوق بچپن سے ہو جائے تو پھر لڑکپن میں عروج پر دیکھنے کو ملتا ہے۔بلکہ گزشتہ چند سال پہلے تک تو بسنت کے تہوار پر خواتین نے بھی اس شوق کو باقاعدہ پتنگیں اُڑا کر پورا کیا تھا۔اس میں مختلف سائز کی گُڈی کاغذکی رنگ برنگی پتنگیں بنائی جاتی ہیں اور پھر انکو ہوا میں اُڑانے کیلئے ایک مایا لگی بہترین ڈور استعمال کی جاتی ہے ۔ ڈور کے معیار کا تعین دھاگے اور اُس پر لگے اُس مانجھے سے ہوتا ہے جس میں شیشہ بھی باریک پیس کا ملایا جاتا ہے اور نرم کرنے کیلئے کبھی انڈا بھی ۔تاکہ ہوا میں کاٹ تیز بھی ہو ہاتھ بھی بچ جائیں ۔ لیکن پھر بھی جذبات میں آپس میں پتنگیں کاٹنے کے مقابلے کے دوران اُس ڈور سے ہاتھ کی اُنگلیوں پر اتنے چیرے آجاتے ہیں کہ ہاتھ خون سے بھر جاتے ہیں لیکن پتنگ کاٹ کر" بو کاٹا" کی آواز لگانے کا سرُور اُس تکلیف کو بھی بُھلا دیتا ہے۔ ہاں جسکی پتنگ کٹ جاتی ہے وہ ہاتھوں میں تکلیف کے باوجود کہے بغیر نہیں رہتا "پیچا" زبردست تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے کھیل اس ہی طرز پر کھیلے جاتے رہے ہیں جو اب کلچر کا حصہ کم ہی رہ گئے ہیں جن میں بند کِلا،6ٹینیں وغیرہ شامل ہیں۔ ٭…٭…٭
-
حوصلہ افزائی کے لیے بے حد شکریہ خالد بھائی!

باقی عارف جمیل کی جو تحریر اور تصاویر آپ نے شیئر کی ہیں اس نے اس شکستہ تحریر کو چار چاند لگادیے ہیں۔

جزاک اللہ برادرم!
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت خوب جناب۔ بچپن ایک دم سے آنکھوں کے آگے آ گیا۔
پسندیدگی کے لیے بہت شکریہ عبد القیوم بھائی!
'یسو پنجو' کا ذکر بھی کر دی جیے گا
اچھا یاد دلا یا آپ نے۔ یسو پنجو بھی کھیلتے تھے بچپن میں۔ بہت پرلطف کھیل ہے۔ ان شاء اللہ اس کا بھی تذکرہ کروں گا۔ :)
 

loneliness4ever

محفلین
آہ !!! کیا زمانہ یاد دلا ڈالا آپ نے
ان کھیلوں میں
اونچ نیچ
آنکھ مچولی
کونا کونا
پہل دوج
کا ذکر ہونا رہ گیا
 
Top