تخلیقی انداز سے کیسے سوچا جائے؟

تخلیقی انداز سے کیسے سوچا جائے؟

مقبولِ عام کتاب

’’بڑی سوچ کے کرشمے‘‘

سے کارآمد اور دلچسپ باتیں

زندگی میں کامیابی کے لیے تخلیقی سوچ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہم بھی تھوڑی سی کوشش اور توجہ سے اپنی تخلیقی صلاحیت بہتر بنا سکتے ہیں۔ بہتر تخلیقی صلاحیت ہمارے کام یا کاروبار ، ہمارے تعلقات اور ہماری گھریلو زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں لے کر آتی ہے ۔ ہم اپنی تخلیقی صلاحیت کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں، اس سلسلے میں جارجیا سٹیٹ یونیورسٹی اٹلانٹا کے پروفیسر ڈاکٹر ڈیوڈ جے شواٹز (David J. Schwartz) کی مقبول کتاب’’ بڑی سوچ کے کرشمے‘‘ (The Magic of Thinking Big) ہماری بھرپور راہ نمائی کرتی ہے۔ زیرِنظر مضمون میں اسی کتاب میں تخلیقی صلاحیت بہتر بنانے کے لیے دی گئی رہنمائی اور تجاویز کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

٭٭

تخلیقی سوچ کے متعلق اکثر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اسے سائنس ،انجینئرنگ ،آرٹ اور لکھنے کے شعبوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔اس کا تعلق بجلی کی ایجاد یا پولیو ویکسین کی دریافت سے جوڑا جاتا ہے یا پھر اسے ناول نگاری اور رنگین ٹی وی کی ایجاد سے منسلک کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ تمام کامیابیاں تخلیقی سوچ کا اظہار ہیں۔ لیکن تخلیقی سوچ کا تعلق چند مخصوص شعبوں تک محدود نہیں اور نہ ہی بہت زیادہ ذہین لوگوں کی اس پہ اجارہ داری ہے ۔ کم آمدنی والے خاندان کا اپنے بچے کو اچھی یونیورسٹی میں پڑھانے کی منصوبہ بندی کرنا ، محلے یا علاقے کی بد نما جگہ کو خوبصورت جگہ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنا، کسی مشکل گاہک کو کوئی چیز خریدنے کے لیے آمادہ کرنا، بچوں کو فارغ وقت میں تعمیری انداز میں مصروف رکھنا ، ملازموں کے لیے ان کے کام کو دلچسپ بنانا یا کسی جھگڑے سے بچنے کی کوشش کرنا…یہ سب روزمرّہ زندگی میں تخلیقی سوچ کی مثالیں ہیں۔

تخلیقی سوچ کا مطلب ہے کسی کام کو کرنے کا نیا اور بہتر طریقہ تلاش کرنا۔ گھر ہو یا باہر کی کوئی ذمے داری، کامیابی صرف اس وقت ملتی ہے جب کام کو بہتر انداز میں کیا جائے۔آیئے ہم دیکھتے ہیں کہ تخلیقی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔

پہلا قدم

کوئی کام کرنے کے لیے سب سے بنیادی قدم یہ ہے کہ اس بات کا یقین پیدا کیا جائے کہ یہ کام کیا جا سکتا ہے یا یہ کام میں کر سکتا ہوں۔ جب ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ یہ کام کیا جا سکتا ہے تو ہمارا ذہن یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ یہ کام کیسے کیا جا سکتا ہے۔ تخلیقی سوچ کے اس نکتے کی وضاحت ایک مثال سے کی جا سکتی ہے جو میں تربیتی پروگرام میں اکثر استعمال کرتا ہوں۔ اس میں حاضرین سے پوچھا جاتا ہے کہ کتنے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگلے ۳۰؍سالوں میں جیلوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔حاضرین یہ سن کر حیران ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان سے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔لیکن جب میں اپنا سوال دہراتا ہوں تو ان کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ میں مذاق نہیں کر رہا۔

ان میں سے ایک کہے گا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں تمام قاتل ، چوراور بدکار آزاد ہو جائیں؟ ایسا کرنے سے ہم سب غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ ہم جیلوں کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں؟ایک دوسرا شخص اٹھے گا اور کہے گا کہ اگر جیلیں نہیں ہوں گی تو تمام معاشرے کا نظم تباہ ہو جائے گا، کچھ لوگ پیدایشی مجرم ہوتے ہیں۔ ہمیں مزید جیلوں کی ضرورت ہے۔ کیا آپ نے آج کے اخبار میں ایک قاتل کے بارے میں خبر نہیں پڑھی۔لوگ اس طرح کی وجوہ پیش کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں جیلوں کی کیوں ضرورت ہے۔ایک شخص یہ رائے بھی دے گا کہ ہمیں پولیس کی ملازمتوں کی لیے جیلوں کی ضرورت ہے ۔دس منٹ بولنے کی اجازت دینے کے بعد میں ان پہ واضح کرتا ہوں کہ آپ سے جیلوں کے خاتمے کے بارے میں سوچنے کے لیے کہنادراصل ایک نکتہ سمجھانے کی کوشش ہے۔ آپ میں سے ہر ایک وجوہ پیش کر رہا ہے کہ جیلوں کو کیوں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اب آپ اس بات کا یقین پیدا کریں کہ جیلوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ لوگ آہستہ آہستہ تجاویز پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں:

’’ہم نوجوانوں کی تربیت کے مراکز قائم کر کے جرائم کم کر سکتے ہیں۔ ‘‘

دس منٹ پہلے جو لوگ اس آئیڈیا کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں۔اب اس بارے میں سوچنے لگتے ہیں کہ جیلوں کو ختم کرنا ممکن ہے۔

’’اس کے لیے غربت کو کم کرنا ہو گا کیونکہ زیادہ ترجرائم غربت سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

’’جو لوگ جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں یعنی امکانی مجرم ہیں، تحقیق کے ذریعے ان کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ‘‘

’’ قانون نافذ کرنے والے لوگوں کومثبت اصلاح کے طریقوں کی تعلیم دینا فائدہ مند ہو گا۔‘‘

یہ ان بہت سے خیالات میں سے چند ہیںجو اس بارے میں لوگ پیش کرتے ہیں کہ جیلوں کے خاتمے کا ہدف کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس مثال سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ جب آپ کسی کام کے بارے میں یہ یقین پیدا کر لیں کہ اسے کیا جا سکتا ہے تو آپ کا ذہن ان طریقوں کو سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ جن سے یہ کام کرنا ممکن ہوگااور جب آپ کسی کام کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ یہ نہیں کیا جا سکتا تو آپ کا ذہن وجوہ پیش کرنا شروع کر دیتا ہے کہ یہ کام کیوں نہیں کیا جا سکتا۔

کسی کام کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ ممکن ہے، تخلیقی حل کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔کسی کام کے بارے میں یہ سوچنا کہ اسے کرنا ممکن نہیں، منفی سوچ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس نکتے کا اطلاق ہر طرح کی صورتِ حال پہ ہوتا ہے۔ وہ سیاسی راہنما جو دل کی گہرائی سے یہ سمجھتے ہیں کہ پائیدار عالمی امن کا حصول ممکن نہیں، ان کے ذہن میں وہ طریقے نہیں آئیں گے جن سے دنیا کا امن حاصل کیا جا سکے۔ آپ اپنی زندگی کے ذاتی مسائل کا حل بھی اسی وقت تلاش کر سکتے ہیں جب آپ یہ یقین پیدا کر لیں کہ ان کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔یقین تخلیقی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔جب آپ اپنے ذہن کو موقع دیتے ہیں تو وہ خود نئے راستے ڈھونڈلیتا ہے۔

دو سال پہلے ایک نوجوان نے مجھ سے مشورہ مانگا کہ وہ ایسی ملازمت کرنا چاہتا ہے کہ جس میں ترقی کے امکانات ہوں، وہ نوجوان کسی کمپنی میں کلرک تھا۔ میں نے اس سے اس کے ماضی کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہاری آگے بڑھے کی خواہش قابل تعریف ہے لیکن تمہیں آگے بڑھنے کے لیے کالج کی ڈگری کی ضرورت ہو گی۔ نوجوان نے میری بات سے اتفاق کیا لیکن اس نے کہا کہ میرے لیے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنا ممکن نہیں۔ میری عمر بھی زیادہ ہو چکی ہے، میری گھریلو ذمے داریاں بھی زیادہ ہیں، میرے لیے اپنی موجودہ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لیے وقت نکالنا ممکن نہیں۔

میں نے اسے کہا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ کالج کی تعلیم دوبارہ شروع کرنا ممکن نہیں تو واقعی یہ تمہارے لیے نا ممکن بن جائے گا لیکن اگر تم تعلیم شروع کرنے کا ارادہ کرلو تو کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ نوجوان نے اس بارے میں سوچنا شروع کر دیا اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسے ایک ادارے کی طرف سے تعلیمی سکالرشپ مل گیا ۔اس نے اپنے کام کو ایسے ترتیب دی کہ اسے اپنی کلاسوں کے لیے وقت بھی ملنے لگا۔ اسے اپنی بیوی کی مکمل مدد بھی حاصل ہوئی۔ ان دونوں نے اپنے پیسے اور وقت کو مؤثر انداز میں استعمال کرنا سیکھا۔ وہ ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیااور اس نے ایک بڑے ادارے میں مینجمنٹ ٹرینی کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔

تخلیقی سوچ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کسی کام کے بارے میں اپنی ذات میں یہ یقین پیدا کرلیا جائے کہ اسے کرنا ممکن ہے۔ یقین کے ذریعے تخلیقی قوت کی نشوونما کے لیے ان باتوں کا خیال رکھیے:

۱۔ اپنی سوچ اور گفتگو سے نا ممکن کا لفظ نکال دیجئے، یہ ناکامی کا لفظ ہے۔ کسی کام کے متعلق یہ سوچنا کہ یہ نا ممکن ہے، اس سے ذہن میں ان خیالات کا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے جو آپ سے کہتے ہیں کہ آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں۔

۲۔کسی ایسے کام کے متعلق سوچیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ وہ کام نہیں کر سکتے۔ اُن وجوہ کی ایک فہرست بنائیںجو اس بات پر مبنی ہو کہ آپ اس کام کو کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی خواہشات کو مکمل کرنے میں اس لیے ناکام رہتے ہیں کہ ہم یہ سوچتے رہتے ہیں کہ اس کام کو کرنا فلاں فلاں وجہ کے باعث ممکن نہیں۔

روایتی انداز میں سوچنے والے کا ذہن مفلوج ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ سو سال سے یہ کام اس طریقے سے ہو رہا ہے، اس لیے یہی طریقہ بہتر ہے اور اسے اسی طریقے سے کرنا چاہیے۔ تبدیلی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔

اوسط درجے کا ذہن ہمیشہ ترقی کی مخالفت کرتا ہے۔ بعض لوگوں نے کاروں کی مخالفت میں یہ دلیل دی کہ فطرت یہ چاہتی ہے کہ ہم پیدل چلیں یا گھوڑے استعمال کریں۔ بعض لوگوں نے جہازوں کی مخالفت میںیہ دلیل پیش کی کہ ہمیں پرندوں کے علاقے میں دخل دینے کا کوئی اختیار نہیں۔بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خلاء میں انسان کا کیا کام ہے؟ ایک دانا شخص نے اس کا بڑا خوبصورت جواب دیاکہ آدمی کا تعلق ہر اس مقام سے ہے جہاں جانے کا وہ آرزو مند ہو سکتا ہے۔

کسی کام کو بہتر انداز میں کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ نہیں ہوتا بلکہ جتنے تخلیقی ذہن موجود ہوں اتنے ہی طریقے موجود ہوں گے۔کسی گھر کو سجانے ، لان کو ترتیب دینے ، بچے کی تربیت، کوئی خاص کھانا بنانے کا صرف ایک بہتر طریقہ نہیں ہوتا بلکہ جتنے تخلیقی ذہن ہوں گے ان کاموں کو کرنے کے اتنے ہی بہتر طریقے ہوں گے۔ روایتی سوچ ذہن کو منجمد کر دیتی ہے اور اس میں نئے خیالات کو داخل ہونے سے روک دیتی ہے ۔ کچھ لوگوں کے سامنے نئے خیالات پیش کیجئے اور ان کا ردِعمل نوٹ کیجیے مثلاً نیا خیال یہ ہو سکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر ۷۰؍ سال کر دینی چاہیے یا انتخابات ۲ یا۶؍سال بعد منعقد ہونے چاہئیں۔ اہم بات یہ نہیں کہ یہ خیالات عملی لحاظ سے کتنے بہتر ہیں، بلکہ یہ ہے کہ لوگ نئے خیالات کو کیسے دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ ان خیالات کو سن کر مسکرانے اور انہیں غیر سنجیدہ سمجھنے لگتے ہیں ۔ یہ لوگ روایتی سوچ کے روگ میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ ان خیالات کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔ وہ تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ جو شخص ترقی کرنا چاہتا ہو وہ روایتی سوچ سے دور رہتا ہے۔ اِس سوچ سے چھٹکارا پانے کے لیے ان باتوں کا خیال رکھیئے:

۱۔ نئے خیالات کو خوش آمدید کہنا سیکھئے۔ ’’یہ کام نہیں ہو سکتا‘‘ ۔’’ ایسا ہونا ممکن نہیں‘‘ ۔ ’’یہ احمقانہ خیال ہے‘‘۔ ان جملوں سے نجات حاصل کیجیے۔

۲۔ تجرباتی شخص بنیئے۔ لگے بندھے معمولات سے نجات، نئے ریستوران، نئی کتابوں ، نئے دوستوں کے لیے جگہ پیدا کیجیے۔ کسی دن اپنے کام پر جانے کے لیے مختلف راستہ اختیار کیجیے۔ اپنے مخصوص شعبے کے علاوہ دوسروں شعبوں میں بھی دلچسپی لیں۔ یہ چیز آپ کو نئی ذمے داریوں کے لیے تیار کرے گی۔

۳۔ ترقی پسند بنیے۔ یہ سوچنے کے بجائے کہ میں پہلے جس جگہ تھا، وہاں یہ کام ہم ایسے کرتے تھے ،اس لیے یہاں بھی ایسے ہی کام کرنا چاہیے۔ یہ سوچیے کہ ہم اس کام کو پہلے سے بہتر کیسے کر سکتے ہیں۔یہ مت سوچیں کہ ہم اس طرح کام کرتے تھے اس لیے بچوں کو بھی اسی طریقے سے کام کرنا چاہیے۔

ذرا خیال کیجیے کہ اگر دنیا کی بہترین موٹر کمپنی فورڈ کی مینجمنٹ یہ سوچنا شروع کر دے کہ ہم نے کار بنانے کا حتمی معیار حاصل کر لیا ہے اور اس میں مزید بہتری ممکن نہیں تو اس رویہ سے کمپنی چند دنوں میں زوال کا شکار ہو جائے گی۔

انسانی کاموں میں کاملیت (Perfection)کا حصول ممکن نہیں ۔ یہ کام چاہے میزائل بنانے سے متعلق ہو یا بچوں کی تربیت سے متعلق، ان میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ کامیاب لوگ اس نکتے کو سمجھتے ہیں اور وہ ہمیشہ بہتر طریقے کی تلاش میں رہتے ہیں ۔

اعلیٰ کامیابی ان لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو اپنے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار مقرر کرتے رہتے ہیں۔ وہ کم قیمت میں زیادہ بہتر نتائج اور کم کوشش سے زیادہ بہتر کارکردگی حاصل کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ جنرل الیکٹرک کمپنی کا سلوگن ہے کہ ترقی ہماری سب سے اہم پراڈکٹ ہے۔ آپ بھی ایسا رویہ اپنا سکتے ہیں ۔ ہر روز اپنا کام شروع کرنے سے پہلے دس منٹ اس خیال کو دیجیے کہ میں یہ کام کیسے بہتر انداز میں کر سکتا ہوں۔ میں اپنے ملازمین کی حوصلہ افزائی کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ میں اپنے گاہکوں کو کیا خاص فائدہ دے سکتا ہوں۔ یہ سادہ سی مشق ہے لیکن اس سے آپ کامیابی کے لیے بے شمار تخلیقی طریقے ڈھونڈ سکتے ہیں۔

ہم اپنے کام کرنے کی استطاعت کے بارے میں بھی اکثر غلط اندازہ لگاتے ہیں۔ ایک خاتون شادی سے پہلے ملازمت کرتی تھی۔ اب اس کا خیال تھا کہ گھر کی ذمے داریوں کی وجہ سے ملازمت کے لیے وقت نکالنا ممکن نہیں۔ ایک کار حادثے میں اس کا شوہر معذور ہو گیا۔اب اس خاتون کے لیے ملازمت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اس حادثے کے کچھ عرصہ بعد ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ خاتون گھر کی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی ملازمت بھی بہت اچھے طریقے سے کر رہی ہے۔ اس خاتون نے بتایاکہ کچھ ماہ پہلے تک وہ ملازمت کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مگر اس حادثے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ اسے ملازمت کے لیے وقت نکالنا ہو گا۔

پھر اس نے کئی غیر ضروری چیزوں کو ترک کیا ۔ وقت بچانے کے کئی طریقے ڈھونڈے، بچوں نے بھی اس کے ساتھ تعاون کیا۔ یہ مثال بتاتی ہے کہ استطاعت ذہنی رویے کا نام ہے۔ ہم کیا کیا کر سکتے ہیں، اس کا انحصار اس بات پہ ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے بارے میں کیا اندازہ لگاتے ہیں۔کام کرنے کی استطاعت کے بارے میں ایک بنک ملازم نے اپنا تجربہ یوں بیان کیا۔

ہمارے بنک کے ایک ملازم نے نہایت مختصر نوٹس پہ ملازمت چھوڑ دی۔ میرے شعبے کے انچارج نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ کیا میں عارضی طور پہ جانے والے شخص کا کام سنبھال سکتا ہوں؟ انچارج نے مجھے یہ بھی بتایاکہ اس نے دو اور لوگوں سے اس بارے میں بات کی ہے۔ انھوں نے صاف انکار تو نہیں کیا مگر یہ ضرور کہا کہ ان پر پہلے ہی کام کا دبائو بہت زیادہ ہے۔ میں نے اپنے کیرئیر میں یہ بات سیکھی ہے کہ اس طرح کے مواقع سے انکار دانشمندانہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے میں نے یہ ذمے داری اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں بھی اتنا ہی مصروف تھا جتنا وہ دو لوگ جنھوں نے زائد کام کرنے سے انکار کیا تھا۔ لیکن میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں دونوں کام کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ لوں گا۔

میں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اپنی کارکردگی کو کیسے بہتر بنائوں۔ میں نے اپنے ماتحت کے ساتھ مل کر اپنے وقت کا مؤثر انداز میں استعمال شروع کر دیا۔ میں اپنی موجودہ نوکری دو سال سے کر رہا تھا لیکن اب مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی استطاعت سے کم کارکردگی دکھا رہا تھا۔چند ہفتوں کے اندر اندر میں اپنی دونوں ذمے داریاں بہتر انداز میں سرانجام دینے کے قابل ہو گیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میرے انچارج نے مجھے بلایااور بتایا کہ انہوں نے دونوں کاموں کی ذمے داری مستقل طور پر مجھے دینے کا فیصلہ اور میری تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ یوں میں نے اپنے آپ یہ ثابت کر دیا کہ میں کیا کیا کام کر سکتا ہوں۔ اس کا انحصار اس بات پہ ہے کہ میں اپنی اہلیت کا کیا اندازہ لگاتا ہوں۔

کچھ زیادہ کرنے کا موقع ملے توکھلے دل سے قبول کیجئے۔ کچھ زیادہ کرنے کی ذمے داری قبول کرنا آپ کو دوسروں سے نمایاں کرتا ہے۔جب آپ اس بات پہ توجہ دیتے ہیں کہ میں زیادہ کام کر سکتا ہوںتو تخلیقی حل آپ کے سامنے آ جاتا ہے۔

میں نے اپنے مشاہدے سے یہ بات بھی سیکھی ہے کہ کامیاب لوگ بولنے کے بجائے زیادہ سننے کے قائل ہوتے ہیں۔وہ اپنے کام کے بارے میں دوسروں سے رائے لیتے رہتے ہیں۔جب کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ ان کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ بہتر فیصلے کرنے کے لیے دوسروں کے خیالات اور مشوروں سے فائدہ اٹھائیے، اس سے آپ کا ذہن زیادہ تخلیقی بنتا ہے۔ ایک سیمینار میں ایک ایگزیکٹو کو۱۵؍منٹ کے لیے اس موضوع پہ بات کرنے کی دعوت دی گئی کہ وہ اپنے اہم مینجمنٹ کے مسائل کیسے حل کرتے ہیں ۔ مقرر نے حاضرین کے تجربات اور خیالات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے یہ بتانے کے بجائے کہ وہ اپنے مسائل کیسے حل کرتا ہے، حاضرین کے سامنے اپنے مسائل رکھے اور ان سے حل کے لیے رائے طلب کرنا شروع کردی۔

تقریر کے اختتام پہ میں نے اس کے منفرد انداز کی تعریف کی تو اس نے بتایا کہ اسے یقین تھا کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے اسے اس گروپ سے اچھے مشورے مل سکتے ہیں۔

کامیاب کاروباری ادارے اپنی مصنوعات کے بارے میں صارفین کی رائے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ صارفین کی رائے اور خیالات سننا مصنوعات کو زیادہ قابل فروخت بنانے میں مدددیتا ہے۔ نجی ملاقات ہو یا کوئی دفتری میٹنگ، لوگوں کو بولنے کا موقع دیجیے۔ لوگوں سے ان کے تجربات سنیں۔اس سے آپ کو نئے دوست بنانے کا موقع ملتا ہے لوگوں کی بات توجہ سے سنیں۔ سننے کا مطلب صرف خاموش رہنا نہیںبلکہ دوسروں کی بات کو اپنے ذہن تک پہنچنے کا موقع دیں۔ اکثر اوقات لوگ سننے کی اداکاری کر رہے ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ صرف اپنے بولنے کی باری کا انتظار کر رہے ہو تے ہیں۔

اپنے پیشے کے علاوہ دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد سے ملنے کے مواقع سے فائدہ اٹھائیے۔ ان کے خیالات سنیں۔ اس سے ذہن کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک نوجوان اکائونٹنٹ نے اس حوالے سے اپنی کامیابی کا ذکر یوں کیا:

میری رئیل اسٹیٹ میں دلچسپی واجبی سی تھی ۔ میں گزشتہ کئی سالوں سے اکائونٹنٹ تھا۔ ایک مرتبہ میرے دوست نے مجھے ایک لنچ میں شرکت کی دعوت دی جس میں رئیل اسٹیٹ سے وابستہ افراد شریک تھے۔ وہاں ایک بڑی عمر کے مقرر ، جس نے شہر کو اپنی آنکھوں سے وسیع ہوتے دیکھا تھا، خطاب کیا۔ اس نے بتایا کہ مستقبل میں شہر کے باہر ایسے چھوٹے فارمز کی طلب میں ریکارڈ اضافہ ہو گاجہاں لوگوں کو تالاب ، باغ اور دوسرے مشاغل کے لیے جگہ دستیاب ہو سکے۔ میں نے اس رجحان سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے شہر سے باہر زمین خریدی اور فارمز کے لیے پلاٹ فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ میں نے صرف چھ ہفتوں کے اندر بہت کم وقت صرف کر کے۱۰؍پلاٹ فروخت کر دیئے۔ یہ منصوبہ میرے لیے بڑا منافع بخش ثابت ہوا۔

شاہ بلوط کا درخت ہر سال اتنے زیادہ پھل (Acorns) پیدا کرتا ہے کہ جس سے ایک جنگل آباد ہو سکتا ہے۔ لیکن ان میں سے صرف تھوڑے درخت بن پاتے ہیں۔ بہت سارے پھلوں کو گلہریاں تباہ کر دیتی ہیں۔اسی طرح درخت کے نیچے کی سخت زمین بہت سے پھلوں کے لیے سازگار نہیں ہوتی۔ یہی عمل خیالات کے ساتھ ہوتا ہے، اگر ان پہ توجہ نہ دی جائے تو یہ جلد ختم ہو جاتے ہیں۔ انہیں گلہریاں یعنی منفی لوگ تباہ کر دیتے ہیں۔ ان خیالات کو عملی شکل تک پہنچانے کے لیے خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

۱۔ خیالات کو لکھ لیں۔ اگر انہیں کاغذ پہ منتقل نہ کیا جائے تو یہ ختم ہو جاتے ہیں۔ صرف اپنی یادداشت پہ بھروسا نہ کیجیے بلکہ اپنے پاس نوٹ بک رکھنے کی عادت اختیار کیجیے۔ جب بھی اچھا خیال ذہن میں آئے، اسے لکھ لیں۔ جو لوگ تخلیقی سوچ رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اچھا خیال کسی جگہ کسی وقت بھی ذہن میں آسکتا ہے۔

۲۔ خیالات کا وقتاً فوقتاً تجزیہ کرتے رہیں۔

۳۔ خیالات کو پھلنے پھولنے کا موقع دیں۔ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں اور مناسب وقت پہ انہیں عملی شکل دیں۔ ایک ماہر تعمیرات کے ذہن میں جیسے ہی کسی نئی بلڈنگ کا نقشہ آتا ہے تو وہ اس کی ابتدائی ڈرائنگ بنا لیتا ہے۔ اسی طرح ایک لکھنے والے کے ذہن میں جب کوئی آئیڈیا آتا ہے، وہ اس کو پہلے ڈرافٹ کی شکل دے دیتا ہے۔ ایک آئیڈیا یا خیال کو لکھ لینے سے اس کا بہتر تجزیہ ممکن ہو جاتا ہے ۔

تخلیقی سوچ پیدا کرنے کے لیے

یہ باتیں ذہن میں رکھیے

۱۔ جب آپ کسی کام کے بارے میں یہ یقین پیدا کر لیتے ہیں کہ اسے کرنا ممکن ہے توآپ کا ذہن ان طریقوں کو سوچنا شروع کر دیتا ہے جن سے اس کام کو کیا جا سکے۔

۲۔ روایتی سوچ سے اپنے ذہن کو مفلوج نہ بنایئے۔ نئے خیالات کے لیے ذہن کو کھلا رکھیں، تجربات کیجیے اور ترقی پسند سوچ اپنایئے۔

۳۔ اپنے آپ سے روزانہ یہ سوال کیجیے کہ آپ اپنے کام کو کیسے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ اس مشق سے آپ کو بہتر جواب ملیں گے۔

۴۔ اپنے آپ سے یہ سوال کیجیے کہ آپ اپنی استطاعت کیسے بڑھا سکتے ہیں۔ یاد رکھیئے کہ استطاعت ذہنی رویے کانام ہے ۔

۵۔ دوسرے لوگوں کو سننے کی عادت اپنائیں۔اس سے بہتر خیالات ملنے کا امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

۶۔ اپنے ذہن کو وسعت دیں ان لوگوں سے ملیں جو آپ کو نئے خیالات سوچنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

ربط
 
Top