تحریک ختم نبوت ، از شورش کاشمیری

فرید احمد

محفلین
تحریک ختم نبوت
دوسرا معرکہ ختم نبوت کی تحریک میں پاکستان بن جانے کے بعد ان آنکھوں نے دیکھا ، یہ ایک نہیں بیسیوں مورچے تھے ، بظاہر اس کا تعلق اس کہانی سے نہیں ، کیوں کہ یہ کہانی بہت پہلے کی ہے، اور آزادی سے پہلے کے ایام قید وبند کے گرد گھموتی ہے،
لیکن یہ کہانی چونکہ اب لکھ رہا ہوں ، اور ذکر بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے مسلمانوں کی شیفتگی کا ہے، اس لیے تذکرہ یہ واقعہ بھی آگیا ہے،
کربلا کا سانحہ پڑھا ، یہ المیہ دیکھا ہے ، وہاں خاندان اہل بیت تھا ، اس کی عظمتیں و نسبتیں ہر لحاظ سے بالا و اعلی ہونے کے علاوہ مقدس و محترم ہیں، یہاں جاں نثاران نبوت تھے کہ اپنوں ہی کے ہاتھوں گولیاں کھا کھا کر اور کلمہ طیبہ پڑھ پڑھ کر جان دے رہے تھے، ایک جگہ نہیں لاہور کے مختلف بازاروں میں کوچوں ، کونوں اور موڑوں پر فدایان رسول صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو رہے تھے، میں نے اپنی آنکھوں سے کافی ہاؤس کے سامنے نوجوانوں کے ایک غول کو شہید ہوتے دیکھا ، لا الہ پڑھتے چلے آ رہے تھے ، مال روڈ کی طرف سے پولیس کا مسلح دستہ پہنچا ، باڑھ باندھا تڑ تڑ گولیاں چلنے لگیں ، نوجوانوں کی زبان سے یاسول اللہ کے سوا کوئی کلمہ نہ نکلا ، اور اس کے کلمہ کے ساتھ ہی دس بارہ نوجوان ڈھیر ہو گئے، یہ اتنا دل دوز پرجوش اور عظیم مظاہرہ ایثار تھا، کہ ان نظاہر و شواہد ہی سے تاریخ کی بعض حیرت انگیز سچائیوں کو انسانی اذہان میں درجہ یقین حاصل ہوتا ہے، یہ شرار بو لہبی اور چراغ مصطفوی کے درمیان معرکہ کربلا ہی کا ایک جاں گداز پڑاؤ تھا ۔
 

فرید احمد

محفلین
جزاک اللہ

جی صاحب درست ہے ، ایک لفظ چھوٹ گیا
ویسے مضمون کے شروع میں یہ پورا تحریک ختم نبوت ہی ہے ۔
چلو آپ کا شکریہ میں نے اصلاح کر لی ۔
 
Top