پروین شاکر تتلیوں کی بے چینی آ بسی ہے پاؤں میں

ایم اے راجا

محفلین
تتلیوں کی بے چینی آ بسی ہے پاؤں میں
ایک پل کو چھاؤں میں، اور پھر ہواؤں میں

جن کے کھیت اور آنگن ایک ساتھ اجڑتے ہیں
کیسے حوصلے ہوں گے ان غریب ماؤں میں

صورتِ رفو کرتے، سر نہ یوں کھلا رکھتے
جوڑ کب نہیں ہوتے، ماؤں کی رداؤں میں

آنسوؤں میں کٹ کٹ کر کتنے خواب گرتے ہیں
اک جوان کی میت آ رہی ہے گاؤں میں

اب تو ٹوٹی کشتی بھی آگ سے بچاتے ہیں
ہاں کبھی تھا نام اپنا بخت آزماؤں میں

ابر کی طرح ہے وہ یوں نہ چھو سکوں لیکن
ہاتھ جب بھی پھیلائے آ گیا دعاؤں میں

جگنوؤں کی شمعیں بھی راستے میں روشن ہیں
سانپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں

صرف اس تکبر میں اس نے مجھ کو جیتا تھا
ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نارساؤں میں

کوچ کی تمنا میں پاؤں تھک گئے لیکن
سمت طے نہیں ہوتی پیارے رہنماؤں میں

اپنی غمگساری کو مشتہر نہیں کرتے
اتنا ظرف ہوتا ہے درد آشناؤں میں

اب تو ہجر کے دکھ میں ساری عمر جلنا ہے
پہلے کیا پناہیں تھیں، مہرباں چتاؤں میں

ساز و رخت بھجوادیں حدِ شہر سے باہر
پھر سرنگ ڈالیں گے ہم محل سراؤں میں


( پروین شاکر مرحومہ، کی " خوشبو " سے انتخاب )
 

الف عین

لائبریرین
راجا ٹائپ کرنے میں کافیہ غلطیاں ہو گئی ہیں۔۔ اوپر ’خوشبو‘ رکھی ہے، کون جا کر نکالے، لیکن:
صورتِ رفو کرتے، سر نہ کھلا رکھتے
جوڑ کب نہیں ہوتے، ماں کی رداؤں میں
شاید یوں ہونا چاہیے:
صورتِ رفو کرتے، سر نہ یوں کھلا رکھتے
جوڑ کب نہیں ہوتے، ماؤں کی رداؤں میں
البتہ یہ دونوں اشعار دیکھ کر درست کر لو۔۔
کیا پوسٹ کرنے سے پہلے گوگل کر لیا تھا۔ پروین تو ویب پر جگہ جگہ موجود ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
گوگل نہیں کیا پڑھ رہا تھا اچھی لگیں فراغت تھی دل نے چاہا محفل کی نذر کر دیں، ٹائپنگ مسٹیکس تھیں حضور درست کر دیں۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
ان دو اشعار کا لکھنا تھا لیکن کاپی پیسٹ کرنا رہ گیا۔۔ ان کو درست کرو:
ابر کی طرح ہے یوں نہ چھو سکوں لیکن
ہاتھ جب بھی پھیلائے آ گیا دعاؤں میں

کچھ تو شمعیں بھی راستوں میں روشن ہیں
گھپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ راجا صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیئے۔

اعجاز صاحب آپ کا بھی بہت شکریہ درستگی کیلیئے، نوازش
 

ایم اے راجا

محفلین
کچھ تو شمعیں بھی راستوں میں روشن ہیں
گھپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں


میرے پاس موجود کتاب میں یہ شعر اسی طرح ہے، شاید پبلشنگ/ پرنٹنگ کی غلطی ہے، اگر آپ کے پاس ہے تو براہِ کرم پوسٹ کردیں۔ شکریہ۔
 

جیا راؤ

محفلین
صرف اس تکبر میں اس نے مجھ کو جیتا تھا
ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نارساؤں میں

بہت خوبصورت غزل ہے۔
شئیر کرنے کا شکریہ:)
 

الف عین

لائبریرین
جن دو اشعار کی بات کی تھی۔۔ ان کی تصحیح کا پیغام بھی پوسٹ کیا تھا۔ لیکن؟؟؟؟؟

یہ یوں ہیں:

ابر کی طرح ہے وہ، یوں نہ چُھوسکوں لیکن
ہاتھ جب بھی پھیلائے آ گیا دعاؤں میں
جگنوؤں کی شمعیں بھی راستے میں روشن ہیں
سانپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں
 

محمد وارث

لائبریرین
کچھ تو شمعیں بھی راستوں میں روشن ہیں
گھپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں


میرے پاس موجود کتاب میں یہ شعر اسی طرح ہے، شاید پبلشنگ/ پرنٹنگ کی غلطی ہے، اگر آپ کے پاس ہے تو براہِ کرم پوسٹ کردیں۔ شکریہ۔

راجا صاحب یہ شعر ضرور درست کریں جیسے اعجاز صاحب نے لکھا ہے، میرے پاس خوشبو، مطبوعہ مراد پبلی کیشنز، اسلام آباد مئی 1994ء ہے، جب شاعرہ زندہ تھیں، دیباچہ انہی کا لکھا ہوا ہے اسی سال افسوس دسمبر میں آپ وفات پا گئیں۔

یہ پروین شاکر کا بہت مشہور بلکہ بیت الغزل ہے، واہ واہ واہ

جگنوؤں کی شمعیں بھی راستے میں روشن ہیں
سانپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں




جن کے کھیت اور آنگن ایک ساتھ اجڑے ہیں

کیسے حوصلے ہوں گے ان غریب ماؤں میں


یہاں بھی 'اجڑے' کی جگہ 'اجڑتے' ہے۔
 
Top