بے مثال گائیکہ شمشاد بیگم

125614-RaeesFatimaNEW-1368294501-971-640x480.JPG


فنکار کبھی نہیں مرتے، کبھی اپنی تحریروں کے ذریعے، کبھی شعر کے پردے میں، کبھی تصویر کے رنگوں میں، کبھی موسیقی کی دھنوں اور راگوں میں اور کبھی آواز کے جادو میں… کون ہے جو ہمیں یاد نہ ہو… آوازوں کی دنیا عجیب دنیا ہے، کبھی ماضی کی قندیلیں روشن کردیتی ہے، کبھی زخم ہرے کردیتی ہے اور کبھی پھول مہکادیتی ہے، برصغیر نے کیسی کیسی خوبصورت آوازوں کو جنم دیا، اگر صرف خواتین کی بات کریں تو امیر بائی کرناٹکی، جوتھیکا رائے، زہرہ بائی انبالے والی، بیگم اختر، ملکہ پکھراج، مبارک بیگم، ثریا، سدھا ملہوترہ، گہتا دت، خورشید، نور جہاں، آشا اور لتا…

لیکن ان تمام آوازوں میں شمشاد بیگم ہر لحاظ سے منفرد نظر آتی ہیں، بعض آوازوں پہ کسی نہ کسی دوسری آواز سے مماثلت کا گمان بھی ہوتا ہے، جیسے سدھا ملہوترہ کی آواز، یہ کبھی کبھی لتا جی کی آواز سے میل کھا جاتی ہے، لیکن دو گلوکارائیں ایسی ہیں جن کی آواز اور گائیکی کا انداز کسی سے نہیں ملتا… ایک ثریا دوسری شمشاد بیگم، ان دونوں کی آواز ہزاروں میں پہچانی جاسکتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے مرد گلوکاروں میں سہگل اور طلعت محمود کی آواز… ماہرین موسیقی کے مطابق گانے والے کی آواز میں تین خصوصیات کا ہونا ضروری ہے،

پہلی یہ کہ گلا صاف ہو، بھرایا ہوا نہ ہو، دوم گاتے وقت گانے کا ایک ایک بول واضح طور پر صاف سمجھ میں آئے اور تیسرے یہ کہ جس سچویشن کا گانا ہو وہ کیفیت آواز میں محسوس ہونی چاہیے، ان تینوں خصوصیات کو مدنظر رکھا جائے تو شمشاد بیگم کی آواز ان پر مکمل طور سے پوری اترتی ہے، انھوں نے جو بھی گانا گایا اس کی روح میں اتر گئیں۔ خوشی کا گیت گاتے ہوئے وہ ایک الہڑ دوشیزہ بن جاتی ہیں، غم کے گیت دل پر یوں اثر کرتے ہیں کہ جیسے سننے والا بھی اسی کیفیت سے دوچار ہو، قدرت نے انھیں ایسی مدھر اور دلکش آواز دی تھی جو کسی اور کے حصے میں نہیں آئی، قدرت نے ان کے گلے میں’’مرکیاں‘‘ بھردی تھیں جیسے آواز کے ساتھ ساتھ کچھ گھنٹیاں سی گلے میں بج رہی ہوں۔

شمشاد بیگم پہ قدرت خاص مہربان تھی کہ انھوں نے کسی سے گانا نہیں سیکھا بلکہ ان لڑکیوں کی طرح گانے کی ابتدا کی جیسا کہ عام طور پر خاندان کی لڑکیاں گایا کرتی ہیں یعنی کسی میلاد میں نعتیں پڑھ لیں یا کسی شادی بیاہ میں گیت گالیے… لیکن کاتب تقدیر نے سر کی دیوی ان کے گلے میں اتاردی تھی، حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ انھوں نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت نہیں لی لیکن سروں کی ملکہ بن گئیں، کسی بھی کیفیت کا گیت ہو اسے سن لیجیے کہیں بھی کسی غلطی یا ناپختگی کا احساس نہیں ہوتا، جیسے قدرت نے خود موسیقی کا درس دے کر بھیجا ہو، ایک طویل عرصے تک شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی والوں کے گھروں میں شمشاد کا فلم ’’بابل‘‘ میں گایا ہوا یہ گیت ضرور بجتا تھا۔

’’چھوڑ بابل کا گھر، موہے پی کے نگر، آج جانا پڑا‘‘

ہم نے اس گیت پر جو دراصل رخصتی کا ہے بیشتر خواتین کو آبدیدہ ہوتے دیکھا ہے، یوں لگتا ہے جیسے گانے والی خود بابل کے گھر سے رخصت ہورہی ہو، پھر شکیل بدایونی کے نہایت پراثر الفاظ جو شعر کے روپ میں شمشاد کے گلے سے نکل کر امر ہوگئے، شمشاد نے بیک وقت کئی زبانوں میں گانے گائے، خاص کر فلم ’’شبنم‘‘ میں جس میں مرکزی کردار کامنی کوشل اور دلیپ صاحب نے ادا کیے تھے اس کی موسیقی مشہور اور نامور موسیقار ایس ڈی برمن نے دی تھی، یہ اپنے زمانے کی نہایت کامیاب فلم تھی، اس کے تمام گانے بہت مقبول ہوئے تھے لیکن خاص طور پر سے شمشاد بیگم کا یہ گانا ہر لحاظ سے سپرہٹ تھا۔

یہ دنیا روپ کی چور، بچالے مجھے بابورے

یہ گیت انھوں نے اردو، پنجابی اور بنگالی کے علاوہ دو تین اور زبانوں میں بھی گایا تھا۔ اسی طرح فلم ’’آن‘‘ کے وہ دو گیت جو ہولی کے تہوار پہ گائے گئے ہیں اپنی مثال آپ ہیں، خوشی اور رنگ دونوں ان گیتوں سے بہتے نظر آتے ہیں، ان میں سے ایک گیت کا مکھڑا تھا ’ہولی آئی ہے، کہنائی رنگ برسے، سنادے موہے بانسری‘۔ اور دوسرا تھا ’’کھیلو رنگ ہمارے سنگ آج دن رنگ رنگیلا آیا‘‘۔ ان مدھر خوشی کے گیتوں کے علاوہ دکھ بھرے نغمے بھی اسی مہارت سے گائے، جیسے کہ ’’دیدار‘‘ کا یہ گیت جو نرگس پہ فلمایا گیا۔

’’چمن میں رہ کے ویرانہ میرا دل ہوتا جاتا ہے‘‘۔ دلاری کا یہ گیت ’’نہ بول پی پی مورے انگنا، پنچھی جارے جا‘‘۔ چاندنی رات کے یہ گیت: ’’چھایا میری امید کی دنیا پہ اندھیرا۔ دو دن کی خوشی راس نہ آئی مرے دل کو‘‘۔ بابل ہی کا یہ گیت: ’’نہ سوچا تھا یہ دل لگانے سے پہلے۔ دھڑکے مرا دل مجھ کو جوانی رام قسم نہ بھائے‘‘۔ فلم میلہ کا یہ سدا بہار گیت ’’تقدیر بنی، بن کر بگڑی، دنیا نے ہمیں برباد کیا‘‘۔ ان کے علاوہ ان کے شہرہ آفاق گانوں کی ایک طویل فہرست ہے جس کے لیے یہ مختصر کالم کافی نہیں۔

شمشاد بیگم نے تمام نامور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا لیکن ان کو بریک دیا ماسٹر غلام حیدر نے جنھوں نے ان کی آواز کی کوالٹی اور کھنک سے متاثر ہوکر اکٹھے بارہ گانوں کا کنٹریکٹ دے دیا، شمشاد بیگم کے چچا خود موسیقی کے رسیا تھے، وہ ان کی گائیکی اور آواز کی اہمیت کو جان گئے تھے، اسی لیے بھائی سے زبردستی گانے کی اجازت دلوائی، انھوں نے بیٹی کو اس شرط پہ اجازت دی کہ وہ کبھی تصویر نہیں کھنچوائیں گی اور برقعہ پہن کر گانا گائیں گی، شمشاد نے اپنے والد کی بات کا پاس رکھا اور 1972 تک کسی نے ان کی تصویر نہیں دیکھی، پھر ان کا پہلا انٹرویو موسیقار نوشاد علی نے ریکارڈ کیا جو کیسٹ کی شکل میں ان کے پرستاروں تک پہنچا۔ شمشاد ذاتی طور پر کندن لال سہگل کی آواز کی پرستار تھیں، انھوں نے ماسٹر غلام حیدر، ایس ڈی برمن، سی رام چندر، نوشاد علی اور او پی نیئر جیسے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا لیکن سب سے زیادہ گیت انھوں نے نوشاد علی کی موسیقی میں گائے۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ 1940 میں جب وہ موسیقی کی دنیا میں اپنا نام بنانے کی جدوجہد میں سرگرم تھے، شمشاد بیگم اس سے بہت پہلے شہرت اور عظمت کی بلندیوں کو چھورہی تھیں، وہ شمشاد بیگم کے شکر گزار تھے کہ ان کے گائے ہوئے گیتوں کی وجہ سے وہ بھی شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچے، یہ نوشاد کی عظمت تھی کہ انھوں نے اس امر کا اعتراف کیا اور کبھی شمشاد کو بھولے نہیں۔

انھوں نے ’’مدر انڈیا‘‘ کے 12 گانوں میں سے چار گانے صرف شمشاد ہی سے گوائے، ایس ڈی برمن بھی فلم ’’شکاری‘‘ اور ’’شبنم‘‘ میں گائے ہوئے گیتوں ہی کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔ ورنہ پہلے وہ صرف بنگالی فلموں کے کمپوزر تھے، اسی طرح اوپی نیئر جنھوںنے اپنا کیریئر ایک آفس بوائے کی حیثیت سے شروع کیا تھا اور جو تمام سنگرز کو کیک کھلایا کرتے تھے، تقسیم کے بعد جب قدرت ان پر مہربان ہوئی تو انھوں نے سب سے پہلے شمشاد بیگم سے اپنی فلموں منگو، مسٹر اینڈ مسز55، ہوڑہ برج اور دیگر فلموں میں گانے گوائے، ان کا کہنا تھا کہ ’’شمشاد کی آواز ایسی ہے جیسے مندر کی گھنٹیاں بج رہی ہوں‘‘ وہ کہتے تھے کہ شمشاد کے گلے میں جو صفائی اور نکھار ہے وہ کسی دوسری گلوکارہ کے ہاں نہیں، شمشاد شہرت کی جن بلندیوں پر تھیں اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ تمام موسیقار دیگر گلوکاراؤں کو کہتے تھے کہ وہ شمشاد کی طرح گائیں، لتا اور آشا سے بھی موسیقاروں کا یہی مطالبہ ہوتا تھا۔

آج بھی ان کا ثانی کوئی نہیں، بچپن سے جو آوازیں کانوں میں پڑیں ان میں سے شمشاد بیگم کی آواز ایسی انوکھی اور دلکش آواز ہے جس نے اپنی جگہ کسی کو نہیں لینے دی۔ جب جب دل اداس ہو اور آپ شمشاد کو سنیں تو سہگل کی طرح ان کی آواز بھی جذبات سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے کوئی ہمدرد اور غم گسار مل گیا ہو، جو آپ کے درد میں شریک ہے، اسی طرح خوشی کے نغمے بھی احساسات کو دوبالا کردیتے ہیں، شمشاد کے نغمے خوشی دوچند کردیتے ہیں۔ کیا کمال کی گلوکارہ تھیں کہ نعت، گیت، قوالیاں، کورس، سب کچھ گایا اور ہر جگہ اپنا سکہ جمایا۔ ’’مغل اعظم‘‘ کی مشہور قوالی ’’تیری محفل میں قسمت آزما کے ہم بھی دیکھیں گے‘‘ بھلا کسے یاد نہ ہوگی۔

سنہری فلمی دور کی سنہری آواز جس نے اپنی گائیکی کا سفر 1933 میں صرف دس برس کی عمر میں شروع کیا، وہ بالآخر 23 اپریل 2013 کو 94 برس کی عمر میں اختتام کو پہنچا، لیکن ان کی آواز موسیقی سے محبت کرنے والوں اور اس کی سمجھ رکھنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
ربط
http://www.express.pk/story/125614/
 

قیصرانی

لائبریرین
شمشاد بیگم میری پسندیدہ گلوکارہ ہیں
تاہم یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ انہیں دفن کرنے کی بجائے جلایا کیوں گیا؟
 
شمشاد بیگم میری پسندیدہ گلوکارہ ہیں
تاہم یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ انہیں دفن کرنے کی بجائے جلایا کیوں گیا؟
اس بارے میں مجھے کچھ علم نہیں کہ انہیں دفن کیا گیا یا جلایا گیا
آج آپ سے پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے
ہاں مشہور شاعر ن م راشد کو ان کی وصیت کے مطابق دفن کرنے کے بجائے جلایا گیا
 

قیصرانی

لائبریرین
اس بارے میں مجھے کچھ علم نہیں کہ انہیں دفن کیا گیا یا جلایا گیا
آج آپ سے پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے
ہاں مشہور شاعر ن م راشد کو ان کی وصیت کے مطابق دفن کرنے کے بجائے جلایا گیا
جی ن م راشد نے غلطی سے اپنی امریکی بیوی کے سامنے ذکر کر دیا تھا کہ انہوں نے ایک کریمیشن کی تقریب دیکھی تھی۔ انہوں نے اس جدت کی بہت تعریف کی۔ ان کی بیوی نے یہ سمجھ لیا کہ وہ اپنے لئے ایسا چاہتے ہیں۔ اس بارے اشفاق احمد نے بھی ایک بار بات کی تھی کہ وہ کہتے رہ گئے کہ مرحوم کی وصیت جلانے سے متعلق نہیں تھی لیکن ان کی بات کو نہیں مانا گیا
وکی پیڈیا سے پتہ چلا ہے کہ شمشاد بیگم کو جلایا گیا تھا
 

تلمیذ

لائبریرین
کالم پوسٹ کرنے کا شکریہ، شاہ جی۔ پرانا وقت یاد دلا دیا۔
شمشاد بیگم بلاشبہ بر صغیر کی (فلمی) موسیقی کا ایک عہد تھیں۔ رئیس فاطمہ چونکہ اہل زبان ہیں اس لئے ان کی توجہ صرف اردو نغموں پر ہی رہی۔ ورنہ ان کے جو پنجابی کے گیت ہیں وہ بھی اپنے وقت کے مقبول ترین گیت تھے اور اگر ان میں سے کوئی اب بھی کہیں سنائی دیتا ہے تو بہت لطف دیتا ہے۔ خصوصاً فلم 'بھنگڑا' کے سولو گیت اور محمد رفیع کے ساتھ دوگانے اور دوسری فلموں کے گیت، جن میں پنجاب کا لوک رنگ پوری طرح جھلکتا تھا:
بتی بال کے بنیرے اتے رکھنی آں
امبیا ں دے بوٹیاں نوں لگ گیا بُور وے
اساں چن نو ں گواہ کیتا (محمد رفیع کے ساتھ ماہیا)
رب نہ کرے کہ چلا جائیں تو وچھڑ کے
ٹُٹ جائیں ریل گڈئیے
گُڑ کھاندی تے نالے گنے چُوپدی
مُل وکدا سجن مل جائے تے لے لواں میں جند ویچ کے
چھیتی ڈولی ٹور بابلا۔۔۔

کہاں تک لکھیں، ایک سے بڑھ کر ایک ہے!
 
آخری تدوین:
کالم پوسٹ کرنے کا شکریہ، شاہ جی۔ پرانا وقت یاد دلا دیا۔
شمشاد بیگم بلاشبہ بر صغیر کی (فلمی) موسیقی کا ایک عہد تھیں۔ رئیس فاطمہ چونکہ اہل زبان ہیں اس لئے ان کی توجہ صرف اردو نغموں پر ہی رہی۔ ورنہ ان کے جو پنجابی کے گیت ہیں وہ بھی اپنے وقت کے مقبول ترین گیت تھے اور اگر ان میں سے کوئی اب بھی کہیں سنائی دیتا ہے تو بہت لطف دیتا ہے۔ خصوصاً فلم 'بھنگڑا' کے سولو گیت اور محمد رفیع کے ساتھ دوگانے اور دوسری فلموں کے گیت، جن میں پنجاب کا لوک رنگ پوری طرح جھلکتا تھا:
بتی بال کے بنیرے اتے رکھنی آں
امبیا ںدے بوٹیاں نوں لگ گیا بُور وے
اساں چن نو ں گواہ کیتا (محمد رفیع کے ساتھ ماہیا)
رب نہ کرے کہ چلا جائیں تو وچھڑ کے
ٹُٹ جائیں ریل گڈئیے
گُڑ کھاندی تے نالے گنے چُوپدی
مُل وکدا سجن مل جائے تے لے لواں میں جند ویچ کے
چھیتی ڈولی ٹور بابلا۔۔۔

کہاں تک لکھیں، ایک سے بڑھ کر ایک ہے!
سبحان اللہ سبحان اللہ :)
 

انعام ندیم

محفلین
شمشاد بیگم میری پسندیدہ گلوکارہ ہیں
تاہم یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ انہیں دفن کرنے کی بجائے جلایا کیوں گیا؟
یہ بات درست نہیں کہ انھیں جلایا گیا۔ البتہ عصمت چغتائی کو اُن کی وصیت کے مطابق جلایا گیا تھا۔
 
Top