بے سکونی اور اس کا علاج

رضا

معطل
بے سکونی اور اس کا علاج
تحریر : حکیم محمد اسلم شاہین قادری عطاری

آج دنیا میں ہر شخص یہ شکایت کرتا ہوا ملے گا کہ اسے سکون حاصل نہیں ہے بے چینی اور اضطراب نے اس کی ہڈیاں تک گھلا دی ہیں۔ اسے دلی سکون میسر نہیں، باوجود دولت شہرت اور ہر قسم کے آرام ہونے کے اس کی روح بے چین ہے دل اداس اور دماغ پریشان ہے اور ہر شخص سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ شراب و رباب کی محفلوں، سینما گھروں، ڈرامہ گاہوں، فحش و عریانی سے مرصع نائٹ کلبوں اور جنسی و رومانی ناولوں کے مطالعہ کے باوجود ان کے دل بے چین ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ۔
سکون عیش و عشرت سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
سکون دوائیوں سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
سکون منشیات سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
سکون آواہ گردی اور جنسی آزادی سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
سکون گانے باجے اور سینما دیکھنے سے حاصل نہی ہو سکتا۔
سکون دولت کے انبار لگانے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
سکون آدمی کے تجویز کردہ طریقوں سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

پھر آخر سکون کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟
اس کے جواب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سکون آخر ہے کیا ؟
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹھاٹ باٹ، کھانا پینا، دوستوں کی مجلسوں کا لطف اٹھانا، نشہ بازی، عورتوں سے عیش و عشرت کرنا سب سکون کا باعث ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام چیزوں سے جو راحت اور سکون حاصل ہوتا ہے وہ بالکل عارضی ہے اور جب یہ حالات اور ماحول تبدیل ہو جاتے ہیں تو سارا مزہ خاک میں مل جاتا ہے اس کی بجائے ندامت بیزاری اور بوریت کا احساس روح کو کچلنے لگتا ہے اور سکون کی بجائے بے چینی، اداسی، وحشت، دل و دماغ پر غلبہ کر لیتی ہے۔
سکون دراصل اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کو خوشی یا غم سے اتنا متاثر نہ ہونے دے کہ اس کے اخلاق و کردار اور انداز و اطوار میں کوئی نمایاں اچھی یا بری تبدیلی واقع ہو جائے مثلاً دکھ اور تکلیف کی حالت میں خدا تعالٰی کو بھی معاذ اللہ کوسنا شروع کر دے اور خود کو دنیا کا سب سے بد نصیب انسان سمجھنے لگے یا خوشی کے عالم میں اخلاقی حدود قیود کو پھلانگ کر اپنے آپ کو بھی بھلا جائے بلکہ غم اور خوشی دونوں میں سے کوئی بھی متزلزل نہ کر سکے پس عیش میں یاد خدا اور طیش میں خوف خدا کا ہونا دراصل سکون قلب کی نشانی ہے۔
سکون کو برباد کرنے والی چیزیں دو ہیں غم اور خوف اس کا جواب قرآن مجید نے ان الفاظ میں دیا ہے۔
“ جن لوگوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر استقامت دکھائی انہیں کوئی غم اور خوف نہ ہو گا۔“
غم سے مراد گزرے ہوئے زمانہ کی ناکامیاں، نامرادیاں، مایوسیاں اور دکھ درد ہوتے ہیں خوف کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو جائے ویسا نہ ہو جائے کہیں یہ واقعہ پیش نہ آ جائے راز افشا نہ ہو جائے حادثہ نہ ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔
اگر ان دونوں چیزوں سے نجات حاصل کر لی جائے تو پھر سکون برباد نہیں ہو سکتا یعنی گزرے ہوئے واقعات پر افسوس کرنا اور ان کا غم دل میں پالتے رہنا کو اگر ترک کر دیا جائے اور آنے والے واقعات سے گھبرانے کی بجائے خدا تعالٰی پر بھروسہ رکھا جائے تو غم اور خوف دونوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے لیکن یہ آسان بات نہیں ہے کیونکہ آدمی احساسات اور جذبات کا پتلا ہوتا ہے ذرہ ذرہ سی بات اس پر اثر کرتی ہے اس لیے غم یا خوف سے متاثر ہونا قدرتی بات ہے لیکن اس تاثر کو اس قدر شدید نہ ہونے دیا جائے کہ غم میں سوکھ کر کانٹا یا خوشی میں پھول کر کپا ہو جائیں اور یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم اللہ عزوجل ہی پر یقین اور اس کی رضا پر راضی رہنا سیکھ لیں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ غم یا خوف کے موقع پر دل سے آواز آئے گی۔
“ گھبراتے کیوں ہو یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہے اور اللہ مہربان ہے اس کے ہر کام میں حکمت ہے اس بات کی مصلحت تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ بہرحال اس میں بہتری ہے پس اللہ کا شکر ادا کرو اور اس پر صبر کرو۔ “
یقین جانیے یہ آواز غم اور خوف کی تمام شدت یک لخت ختم کر دے گی اس طرح گویا سکون حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ اللہ عزوجل نے سکون حاصل کرنے کے لیے ایک اور فارمولا بھی بتایا ہے۔
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ہ ترجمہ : سن لو اللہ کی یاد ہی دلوں کا چین ہے۔
( پ 13 ع 10 ) یعنی اگر اللہ کو یاد کرتے رہو گے تو تمہارا دل مطمئن رہے گا، تمہیں سکون حاصل ہو گا اب اس میں نماز بھی اللہ کا ذکر ہے، قرآن پاک کی تلاوت اللہ کا ذکر ہے درود و سلام بھی اللہ کا ذکر ہے غرض اللہ عزوجل کی یاد اور اس کے پیارے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اطاعت کرنا گویا سکون حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
* * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * * *
 
Top