شکیب جلالی بے خودی سی ہے بے خودی توبہ

بے خودی سی ہے بے خودی توبہ
سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ

ذہن و دل پہ ہے بارشِ انوار
پی ہے مے یا کہ چاندنی توبہ

دکھ کا احساس ہے نہ فکرِ نشاط
پینے والوں کی آگہی توبہ

ان کا غم ہے بہت عزیز مجھے
چھوڑی تھی میں نے مے کشی توبہ

اک جہاں بن گیا مرا دشمن
آپ کا لطفِ ظاہری توبہ

ہے تمہی سے شکستِ دل کا گلہ
میری اُلفت کی سادگی توبہ

ایک ہے شمع ، لاکھ پروانے
تیرگی سی ہے تیرگی توبہ

کتنے دل خون ہوگئے ہوں گے
ان کی آنکھوں میں ہے نمی توبہ

رازِ غم پا گئے ہیں لوگ شکیبؔ
ہنسنے والوں کی بے کسی توبہ

شکیب جلالی
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top