بےکلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے۔ اختر ضیائی

شیزان

لائبریرین
بےکلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے
دل وہ بگڑا ہوا بالک جو کھلونا چاہے

حسن معصوم ہے پر خواب خزانوں کے بنے
کبھی ہیرے، کبھی موتی، کبھی سونا چاہے

تجھ سے بچھڑا ہے تو گھائل کی عجب حالت ہے
بیٹھے بیٹھے کبھی ہنسنا، کبھی رونا چاہے

لاکھ بہلاؤ بھلے وقت کے گلدستوں سے
تلخ ماضی تو سدا خار چبھونا چاہے

کھلی آنکھوں کسی کروٹ نہ ملے چین اکثر
نیند آئے تو نہ پھر سیج بچھونا چاہے

ایسا بپھرا ہے غمِ زیست کا ساگر اختر
اس کی ہر لہر میری ناؤ ڈبونا چاہے

اختر ضیائی
 
Top