بےروزگاری اور مہنگائی کا حل عوامی سطح پر

مہنگائی اور بے روزگاری ایسے مسائل ہیں جو نوجوان نسل میں فرسٹریشن کی بنیادی وجہ ہیں ۔ مگر میری نظر میں یہ ایسے مسائل نہیں جنکا ہم خود حل نہ کر سکیں ۔ پہلے بے روزگاری کی طرف آتے ہیں ۔ آپ کے خیال میں بے روزگاری کا حل کیا ہے اور اس سلسلے میں آپ کے پاس اگر کوئی منصوبہ ہے تو اس پر آپ نے کیا کام کیا ہے ۔ وہ کتنا قابل اعتماد ہے اور اس کے لئے آپ کو کتنا سرمایہ درکار ہوگا (کم از کم) یہاں پر اس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ لوگ اپنے منصوبے یہاں پیش کیجئے ان میں سے کچھ منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی ۔ جو کہ یا توبلاسود قرض حسنہ کی صورت میں ہوگی یا پھر شراکت کی بنیاد پر یہ میرا پہلا پراجیکٹ ہے جس سے میں بے روزگاری کے خاتمے کی جانب پہلا قدم اٹھانا چاہتا ہوں ۔ آپ کی کیا رائے ہے اس سلسلے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

بلال

محفلین
فیصل عظیم بھائی بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے۔ ہماری کیا رائے ہونی ہے بھائی یہ تو ایک بہت بڑا مسئلہ ہے پاکستان کے نوجوانوں کا خاص طور پر۔۔۔۔ ابھی تو کافی وقت ہو گیا ہے۔۔۔ لیکن صبح ضرور لکھوں گا اس پر۔۔۔
 

ساجداقبال

محفلین
میری رائے یہ ہے کہ:
1۔ سب سے پہلے تو جوانوں کو سادگی کیطرف راغب کیا جائے۔
2- ٹیکنیکل تعلیم یا کوئی بھی ہنر سیکھنے کیلیے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اگر مالی مشکلات ہوں تو انکی مالی امداد کی جائے۔
3۔ قابل عمل کاروباری آئیڈیاز رکھنے والے افراد کی مالی اور تکنیکی مدد کی جائے۔
4۔ جو برسرروزگار ہوں، اپنے اردگرد دیکھیں اگر کسی بیروزگار کیلیے جگہ نکلتی ہے تو پوری کوشش کی جائے کہ اسے وہاں کھپا دیا جائے۔
 

arifkarim

معطل
سب سے ضروری چیز میریٹ کی بنیاد پر نوکریوں کی تقرری ہے۔
ہماری پڑھی لکھی نسل کو پاکستان میں رشوت کے بغیر جب کوئی کام ہی نہیں ملے گا تو اسنے مجبوراً دیار غیر کا ہی رخ کرنا ہے۔ :(
 

ظفری

لائبریرین
بیروزگاری کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے ۔ جب آپ کی معیشت میں استحکام ہوگا ۔ معیشت مضبوط ہوگی ۔ انڈیسٹریز لگیں گی ۔ سرمایہ داری ہوگی ۔ اور یہ کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں ۔ اس کے لیئے معاشرے کے ہر طبقے ، سرمایہ دار سے لیکر ایک عام فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ حکومت کو نئی ترجیحات کیساتھ نئی مراعات اور آسانیاں فراہم کرنی پڑیں گی ۔ اور ان تمام چیزوں میں پہلے سب سے اہم امن کا خریدنا ہے ۔ امن ہوگا تو یہ مراحل طے ہونگیں ۔ بصورتِ دیگر بنجر زمین میں آبیاری کا کوئی فائدہ نہیں ۔
 
امن تب ہی ہوگا اگر ہم لوگ اپنا اپنا کردار ادا کریں گے ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حکومت کچھ کرے بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم حکومت کی طرف دیکھیں ہی کیوں ۔ جب ہمیں ان سے بہتر سہولیات پرائیویٹ سیکٹر میں ملیں جیسے کہ ہر سال محنتانہ میں دس سے بیس فیصد اضافہ ۔یا پھر تیرتی ہوئی تنخواہیں جن کا دارومدار عالمی منڈی میں سونے کی قیمت پر ہو ۔ اور ہر سال ایک ماہ کی اداشدہ چھٹی ۔ طبی سہولیات میں بیس سے پچاس فیصد تک چھوٹ ۔ راشن کی خصوصی قیمت پر فراہمی ۔ خاندان کے افراد کے لحاظ سے تنخواہ ۔ سالانہ منافع میں سے مقررہ تناسب سے حصہ ۔ تو ایسے میں کون سرکاری نوکریوں کی طرف دیکھنا پسند کرے گا ۔۔۔؟ اور یہ اتنا مشکل نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں ضرورت صرف اس فیوژن کو پیدا کرنے کی ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں میرا پراجیکٹ اس فیوژن کو پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ آپ لوگوں سے صرف اتنی گزارش ہے ۔ کہ اس فیوژن کو بنانے کے لئے مجھے ان افکار کی ضرورت ہے جن کی بنیاد پر میں ایک بنیادی خاکہ ترتیب دے سکوں ۔ میرے پاس ایک شخص ہے جو معقول رقم اس پراجیکٹ میں لگانے کو تیار ہے ۔ اور وہ معقول رقم شاید پاکستان کے صحت کے بجٹ کے برابر تک ہو سکے مگر اسکے لئے بنیادی شرط ایک قابل عمل منصوبے کا ہونا ہے ۔ آپ لوگوں سے آپ کے منصوبوں کے متعلق پوچھنامندرجہ ذیل مقاصد رکھتا ہے ۔

1۔ قابل عمل منصوبوں کا اس منصوبے میں اندماج
2۔ قابل عمل منصوبوں کے لئے قابل نگرانوں کا حصول

مزید باتیں پھر اب نکالئے جو کچھ آپ کے پاس ہے اور میز پر رکھ دیجئے تاکہ کہیں سے ہی آغاز تو ہو سکے ۔۔۔!
 

دوست

محفلین
اس کے لیے ویب پر اگر کوئی آرگنائزیشن بنا لی جائے تو کیسا رہے گا؟ اس سے اس کی مانیٹرنگ اور انتظام نسبتًا آسان ہوجائے گا۔
محب علوی نے ایک بار ایک کمپنی کا ذکر کیا تھا جو انٹرپرائز سطح پر سافٹویرز کی اردو لوکلائزیشن کا کام کرے۔ لیکن میرا جواب یہ تھا کہ اردو کے بل پر روزی روٹی کمانا خاصا مشکل کام ہے۔ بات چلی تو اس آئیڈیے کو لکھ رہا ہوں۔
 

ساجداقبال

محفلین
مزید باتیں پھر اب نکالئے جو کچھ آپ کے پاس ہے اور میز پر رکھ دیجئے تاکہ کہیں سے ہی آغاز تو ہو سکے ۔۔۔!
کیا کوئی خاص انڈسٹری جس کے متعلق بات کی جائے؟ کم از کم ایک انڈسٹری کا تعین ضروری ہے، جب ہر ایک اپنی سمت میں سوچتا رہیگا تو کسی ایک کام پر اتفاق ہونے سے رہا۔
 

arifkarim

معطل
کیا کوئی خاص انڈسٹری جس کے متعلق بات کی جائے؟ کم از کم ایک انڈسٹری کا تعین ضروری ہے، جب ہر ایک اپنی سمت میں سوچتا رہیگا تو کسی ایک کام پر اتفاق ہونے سے رہا۔

ہم پاکستانیوں میں‌باہم اتفاق کی ہی کمی ہے۔ سب سے منافع بخش انڈسٹری سافٹ ویئر انجینیرنگ ہے۔ اس فیلڈ میں خاص کر ہمارے نوجوانوں کو آگے آنا چاہیے۔
 

damsel

معطل
میرے خیال سے یہ منصوبہ اپنی مدد آپ کے تحت ہی شروع کرنا چاہیئے۔ یہ سوچنا کہ حالات خراب ہیں، معیشت مستحکم نہین ہے، حکومت کیا کرسکتی ہے کیا نہیں وغیرہ یہ سب ہمت توڑ دین گے۔ یہ مسائل ہین لیکن ان کو اگنور کر کے (کیونکہ ہم ان کو حل نہیں کر سکتے فی الحال) اگر کوئی بزنس کیا جائے تو بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔ خالی کھولی نعروں سے تو کچھ نہیں ہوگا۔ ایک عام نوجوان پہلے اپنے گھر کے حالات کو سدھارنا چاہے گا پھر ہی ملک کے لیے کچھ کرسکے گا

بیروزگاری کے خاتمے کے لیےمیری ناقص رائے

سب سے پہلے پڑھے لکھے اور ہم خیال لوگوں کو جمع کرنا
جس پراجیکٹ کو شروع کرنا ہے اس سے متعلق بہترین لوگں کو جمع کرنا
ایسے پراجیکٹ کو شروع کرنا جس کی ڈیمانڈ عالمی منڈی میں ہو یعنی ہمارے کسٹمرز دنیا بھر سے ہوں ہم باہر کا روپیہ اپنے ملک مین لائیں۔
اپنے آس پاس دیکھنا کے کون واقعی میں ضرورت مند ہے اور اس کو یہاں تک لانا
سب سے اہم بات محنتی اور ایماندار لوگون کو جمع کرنا


اب سوال یہ ہے کہ کیا کام کیا جاسکتا ہے

کمپیوٹر کی فیلڈ سے متعلق (اچھا آپشن ہے لیکن میری معلومات اس ضمن مین صفر ہے)
کراچی مین ایک کمپنی ہے Axact ان لوگوں نے کئی طرح کے کام شروع کیئے ہیں جیسے call center، باہر کے اسٹوڈنٹس کے لیے term papers لکھنا وغیرہ اصل میں یہ ایسی کمپنی تھی جس کو باھر کی کسی بڑی کمپنی نے پائر کیا انھوں نے یہیں سے لوگ ہائر کیئے۔کمپنی کو کسٹمر انٹرنیشنل کرنسی میں پے کرتے اور یہ آگے روپوں میں پے کرتے ہیں۔ لیکن اس میں ایک قباحت ہے کہ ضروری نہیں کہ آپ کو ہمیشہ بزنس ملتا ہی رہے۔ یعنی ہوائی روزی ہے لیکن اس نہج پر کام ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ امپورٹ ایکسپورٹ کیونکہ پاکستان مین کئی اچھی چیزین ہیں لیکن ہماری مارکیٹنگ بالکل بھی اچھی نہیں ہے اگر ہم تھوڑی سی توجہ و محنت کریں تو عالمی منڈی میں جگہ بنا سکتے ہیں۔
 

رضا

معطل
"فتویء نبیلیہ،صفحہ نمبر ڈیش ڈیش" کے تحت اسلامی زمرے میں تصویری پوسٹ کرنا "مکروہ محفلی" ہے۔ ;)
لیکن یہ تو جنرل زمرہ ہے اس لئے تصویری مواد حاضر خدمت ہے۔



[
title-lit-89.jpg
p1.gif

p2.gif

p3.gif

p4.gif

p5.gif

p6.gif

p7.gif

p8.gif

p9.gif

p10.gif

p11.gif

p12.gif
[/CENTER]
 

محسن حجازی

محفلین
آج کل خاصا مصروف ہوں، میرے ذہن میں کچھ منصوبے ہیں اور خاص طور پر لاہور میں ایک خاتون کے خودکشی کے واقعے کے بعد سے میں خود انہی خطوط پر سوچ رہا ہوں انشا اللہ ضرور اپنے خیالات پیش خدمت کروں گا۔
سب سے بڑا مسئلہ اعتماد کے فقدان کا ہے۔ ہم لوگ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ میں ذاتی طور پر کچھ کرنے کی حیثیت میں تو نہیں ہوں یہی سوچ رہا تھا کہ کچھ لوگوں کو خاص طور پر بیرون ملک ایسے پاکستانی جو خوشحال ہیں، انہیں یہاں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا جائے اور no profit and no loss کی بنیاد پر کام چلایا جائے تمام تر منافع انہی کام کرنے والے مزدوروں میں ہی تقسیم کر دیا جائے لیکن پھر یہ خیال آیا کہ میرا اعتبار کون کرے گا؟ پھر یہ بھی کہ ہم جیسے معاشروں کی نفسیات میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ آپ جتنے کم حیثیت ہیں اتنے ہی ناقابل اعتماد ہیں۔
میں میٹرک کے بعد نوابشاہ میں ایک ریفریجریشن کی دکان پر کام کیا کرتا تھا۔ اس کے مالک معین بھائی مہاجر تھے کوئی اسی برس کی عمر کے اور ماشا اللہ صحت مند۔ وہ ایک جملہ کہا کرتے تھے جو میرے ذہن سے آج تک چپکا ہوا ہے اوروہ یہ کہ اگر آپ کے پاس 99 روپے ہوں تو 1 روپیہ ملانے والے بہت ہیں لیکن اگر آپ کے پاس 1 روپیہ ہے تو 99 ملانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
بہرطور، میں اس پر کام کرنے کا خواہشمند ضرور ہوں لیکن میں ابھی خود ایک چھوٹی سی کمزور معیشت کا ایک کمزور سا مزدور ہوں، اگر خود کبھی کسی بڑی حیثیت میں ہوا تو انشا اللہ۔
دیگر یہ کہ پاکستان میں تمام این جی اوز پیسہ ضائع کر رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بشری۔۔۔۔ ان کے بس دفتر ہی ہیں پیچھے کچھ نہیں ہوتا۔

فی الحال کافی مصروف ہوں، یہ سطور بھی جانے کیسے لکھ گیا ہوں شاید اس سانحے کے زیر اثر جس کی طرف اشارہ کر چکا ہوں۔
 

دوست

محفلین
آنلائن ڈیٹا انٹری کی کئی جابز ہوتی ہیں۔ ان میں کئی دفعہ بھارت کے لیے سپورٹ‌ موجود ہوتی ہے یعنی وہاں کے ورکر کام کرسکتے ہیں اور انھیں‌ وہیں ادائیگی کی سہولت ہوتی ہے۔ ایسا کوئی کام پاکستان کے لیے نہیں ہوسکتا؟ یورپ سے ایسے آرڈرز لے کر پاکستان میں مقامی نمائندوں کے ذریعے تقسیم کیے جائیں‌ اور کام ہونے کے بعد جب وہاں‌ سے ادائیگی ہو تو اسے مقامی کارکنوں میں‌ تقسیم کردیا جائے۔
 
کریڈٹ یعنی اعتماد جانچنے کے بیورو کی ضرورت

اس مد میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ بناء‌ جڑوں کا پیڑ نا ممکن ہے۔ محسن نے ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا ، وہ ہے اعتماد کی کمی۔ اعتماد کی کمی کیونکر ہے؟ اس لئے کے اگر آپ کے کوئی پیسے لے کر بھاگ جائے تو آپ اس کو کہاں رپورٹ کریں گے؟ ایک یا سے زائید اچھے کریڈٹ رپورٹنگ بیورو کی سخت ضرورت ہے۔ جس میں انفارمیشن ڈالنے کے لئے اور نکالنے کے لئے معمولی فیس ہو یا مفت ہو۔ انفارمیشن نکالنے کے لیے سالانہ ممبر شپ ہو اور ہر قسم کا ادھار دینا اور لینا پبلک انفارمیشن ہو لیکن مفت نہیں ہو۔ ایسے ادارہ چند دوست مل کر بھی شروع کرسکتے ہیں۔ جس میں کمپنیوں کا، عام آدمی کا ادھار لینے کا ریکارڈ ہے کہ کوئی شخص کس قدر قابل اعتماد ہے۔ وہ کتنا ادھار اٹھا چکا ہے اور کس رفتار سے واپس کیا ہے؟ اس سے ایک شخص کے قابل اعتماد ہونے اور اس کے ادھار واپس کرنے کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس کا فائیدہ :‌
جو لوگ امریکہ (جنوبی و شمالی) یا یوروپ میں رہتے ہیں ، کریڈٹ،یا اعتماد کی افادیت کو جانتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد ہے کہ ایک شخص کی اعتماد کرنے کی صلاحیت کو جانچا جائے۔ تاکہ وہ انوسٹمنٹ کرنے والوں سے پیسہ لے کر واپس کرسکے۔ سرمایہ کاری اسی طرح ممکن ہے۔ اس کا ایک دوسرا فائیدہ بھی ہے۔ مستقبل کے 30 سے 40 سالوں میں جو مال یعنی دولت پیدا ہوگی وہ آج استعمال کی جاسکتی ہے۔ کیسے؟‌ سمجھیں آپ نے ایک کروڑ کا لون لیا جو آپ 30 سال میں کما کر واپس کریں گے۔ گویا آئیندہ تیس سال کا پیسہ آپ کو اعتماد پر مل گیا۔ اس طرح معیشیت میں پیسے کی روانی بڑھتی ہے اور غربت میں کمی آتی ہے۔ کیسے ؟‌ آپ اتنا لون لے کر کچھ بھی کریں ، چاہے کھا جائیں ، چاہے انڈسٹری لگائیں، مال معیشیت میں گردش کرتا ہے۔ جمع نہیں رہتا۔ اس طرح لوگوں کو کام ملتا ہے۔ اگر آپ کھا جاتے ہیں تو بی ریستوران والوں کو ہوٹل والوں کو ، باورچی کو ، بیرہ کو مال پہنچتا ہے۔ مال کے روانی آسان ہوجاتی ہے اور معاشی ترقی کی رفتار بڑھتی ہے۔

آج انترنیٹ کی موجودگی میں ایک ایسی سائیٹ‌ضرور کھڑی کی جاسکتی ہے جہاں لوگ اپنا ادھار رپورٹ‌کرسکیں۔ جس کی بنیاد شناختی کارڈ کے نمبر کو بنایا جاسکتا ہے۔نام ، پتہ، شناختی کارڈ نمبر، پاسپورٹ‌نمبر، جاری ہونے کی تاریخ وگیرہ سے ایک شکص کو مثبت طریقہ سے شناخت کیا جاسکتا ہے اور ا سکے ادھار لے کر واپس کرنے کی صلاحیت کا حساب لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنا قابل اعتما د ہے۔۔

یہ ایک بہت بڑی ضرورت ہے ، جس کی پاکستان میں بہت کمی ہے۔ کچھ بھائی مل کر یہ شروع کریں اور ہر شخص کو یہ انفارمیشن بیچیں۔ بنکوں سے رابطہ قائم کریں ، انفارمیشن کا داخلہ مفت لیکن مشروط ہو کہ صرف بنکوں اور لینڈ لارڈز سے معلومات قابل اعتبار سمجھی جائیں اور پھر یہ انفارمیشن قیمتاً‌بیچی جائے۔ کچھ لوگوں کو کاروبار میسر ہوگا اور ایک وسیع سلسلے کی داغ بیل پڑے گی۔

دوسری ضرورت کی طرف اگلے پیغام میں۔
 
یہ اردو محفل کا سب سے بہترین دھاگہ ہے۔ جناب فیصل عظیم صاحب کا شکریہ اس کام کی بات کو شروع کرنے کا۔ خوش رہئیے۔ سب ساتھیوں کے خیالات کا سلسہ بہت اچھا ہے۔
 
شاید میری اس پوسٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس کے مطابق پاکستان میں ایک محدود پیمانے پر کوئی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ اب میں آپ کو اس میں مطلوبہ شعبوں کی نشاندہی کر دوں اور انشاء اللہ اس میں 50 فیصد درخواست دہندگان کو شامل کیا جائے گا ۔ آنے والے پانچ برسوں میں کم از کم ایک کروڑ امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری اور اس کے نتیجے میں ۔ ایک لاکھ اسی ہزار ملازمتوں کے امکانات ۔ چھتیس ہزار کاروباری یونٹس کا قیام ۔ عین ممکن ہے اگر اس تمام منصوبے کو درست طور سے ایگزیکیوٹ کیا گیا تو ۔

اب اس سلسلے میں میں نے جو میدان ذہن میں رکھے ہوئے ہیں انکی نشان دہی ضروری سمجھتا ہوں ۔ آپ لوگوں سے رائے لینے کا مقصد میں اوپر بیان کر چکا ہوں اور اس سلسلے میں مجھے بہت حوصلہ افزاء نتائج حاصل ہوئے ہیں ۔

1۔ طب ( طبی اداروں کی صورت میں ۔ میڈیکل چین)
2۔ تعلیم ( تعلیمی اداروں کی صورت میں )
3۔ کریانہ فروشی (ریٹیل چین کی صورت میں)
4۔ سیکیورٹی سروسز (ہیومین اور میکینیکل)
5۔ریئیل اسٹیٹ
6۔ میڈیا (ایف ایم ریڈیو)

یہ منصوبہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لہذا انکے اندماج انتظامی امور اور بنیادیات پر بحث ہماری میٹنگز میں ہو چکی ہے ۔ میں انشاء اللہ اکتوبر میں پاکستان بھی اسی سلسلے میں جا رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انشاء اللہ یہ منصوبہ جنوری دو ہزار نو میں پاکستان میں لانچ کر دیا جائے گا ۔
 

زرقا مفتی

محفلین
فیصل صاحب
میرے خیال میں گرامین بنک کی طرز کا منصوبہ شروع کیا جائے۔ میرے ذہن میں ایک منصوبہ ہے
کہ زکوۃ فنڈ سے ایک اسلامی بنک یا بیت المال قائم کیا جائے۔ جو چار پانچ نوجوانوں کو ایک مشترکہ کاروبار شروع کرنے کے لئے قرضِ حسنہ فراہم کرے ۔
خواتین کو اپنے گھر بیٹھ کر کام کرنے کے لئے قرضِ حسنہ فراہم کرے۔
اسی طرح غریب مگر ذہین طالبعلموں کو تعلیم کے لئے قرضِ حسنہ فراہم کرے
قرض لینے والے لوگ اپنی خوشی سے یہ رقم قسطوں میں یا یک مشت واپس کریںاور چاہیں تو اس کام میں اپنا حصہ بھی ڈالیں ۔
بنک اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے رئیل اسٹیٹ یا فوڈ انڈسٹری میں شراکت کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرے ۔
ابتدائی طور پر اس بنک میں صرف چھوٹے قرضے دئیے جائیں۔
میرا مشاہدہ ہے کہ عام طور پرچھوٹی صنعتوں سے منسوب کاریگروں کو ان کے کام کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا جیسے جوتے بنانے والے کپڑے سینے والے ، مٹی کے برتن بنانے والے، کڑھائی کرنے والےوغیرہ
غریب طبقے میں گھر کے تقریبآ سبھی افراد کوئی نہ کوئی ہنر سیکھتے ہیں مگر ان کو یا تو کام نہیں ملتا یا ہنر کی صحیح قیمت نہیںملتی
اگر چار پانچ درزی مل کر ریڈی میڈ کپڑوں کا کاروبار کرنا چاہیں
یا چار پانچ موچی جوتے کی دوکان کھولنا چاہیں
تو یہ بنک ان کو شراکت کی بنیاد پر ایک دوکان یا خام مال مہیا کرے۔
پھیری والوں کے لئے اگر اتوار بازار کی طرز پر سستے بازار بنا دئیے جائیں تو شہر میں تجاوزات کا بھی خاتمہ ہو جائے اور ان کو بھی سہولت مل جائے
عورتوں کو اگر سلائی مشینیں ۔ پیکو کی مشینیں، پسائی کی مشینیں ، رنگ سازی کا سامان یا جو کام وہ کرنا چاہیں اس کے لئے مناسب سامان خرید دیا جائے تو گھر بیٹھ کر بھی اپنے خاندان کی آمدن میں اضافہ کر سکتی ہیں
بے روزگار نوجوانوں کو سرکاری سکولوں میں شام کی شفٹ میں سکول بنانے کی اجازت اور مناسب فنڈز مہیا کئے جائیں
دیہاتوں میں مویشی پالنے کے لئے لوگوں کو جانوروں کے بچے دئیے جائیں۔ اور واپس بھی لئے جائیں
ابھی کے لئے اتنا ہی
اگر میری تجویز میں دلچسپی ہو
تو میں اس کی مفصل فیزیبلٹی بنا سکتی ہوں
والسلام
زرقا
 
Top