بیگم حضرت محل کی کہانی

kenzie-mourad-670.jpg

فرانسیسی مصنفہ کینزی مورد لاہور لٹریری فیسٹیول میں راشد رحمان کے ہمراہ –.فوٹو سارہ فاروقی، ڈان ڈاٹ کام

کراچی: گزشتہ دنوں فرانس کے ثقافتی مرکز میں فرانسیسی مصنفہ کینزی مورد نے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ کے پس پردہ ہیرو کے حوالے سے اپنی کتاب پر بات چیت کے دوران بیگم حضرت محل کے کردار پر توجہ مبذول کروائی۔
اپنی کتاب کے عنوان ‘سونے اور چاندی کے شہر میں’ کی تشریح میں کینزی مورد نے کہا کہ سونے اور چاندی سے مراد دولت و امارت کی کثرت نہیں ہے، لیکن کیوں کہ لکھنؤ کا شہر فنون اور ثقافت کا مرکز تھا، تو اس عنوان سے اس شہرکی اس حیثیت کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ لکھنؤ جہاں گنگا جمنا تہذیبیں باہم یکجا ہوتی تھیں اور جہاں ہندو اور مسلمان اتحاد و اتفاق سے رہتے تھے۔ یہ ثقافت اور کشادہ دلی کی سرزمین تھی۔ بیگم حضرت محل اودھ کے حکمران نواب واجد علی خان کی اہلیہ تھیں۔​
کینزی مورد نے بتایا کہ بیگم حضرت محل کی والدہ ان کی کم عمری ہی میں انتقال کرگئی تھیں اور ان والد بھی اس کے کچھ عرصے بعد داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کی پرورش ان کے ایک چچا نے کی اور انہیں اُس دور کے رواج کے مطابق ایک طوائف کے پاس ادب و آداب سیکھنے کے لیے بھیجا۔​
بیگم کے شوہر واجد علی شاہ جو فنون اور شعر و شاعری کے دلدادہ تھے اور کتھک رقص کے بڑے اچھے ماہر بھی تھے۔ ایک مسلم حکمران ہونے کے باوجود کرشنا کے ناٹک میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی تھی۔ جب انگریزوں نے لکھنؤ پر قبضہ کرلیا تو انہوں نے واجد علی شاہ کو معزول کرکے کلکتہ بھیج دیا، جسے آج کل کولکتہ کہا جاتا ہے۔​
جب بیگم حضرت محل کے شوہر کو معزول کرکے جلاوطن کردیا گیا تو انہوں نے برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کرنے والے لوگوں کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے سلطنت اودھ کا اقتدار سنبھال لیا۔ اس وقت ان کی عمر پینتس سال کی ہی تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اس کے والد کی گدّی پر بٹھایا اور خود برطانوی راج کے خلاف صف آرا لوگوں کے ساتھ جنگ میدان میں نکل پڑیں۔ وہ ایک مضبوط اور ذہین شخصیت کی مالک تھیں، انہوں نے ازخود کچھ بہترین جنگی حکمت عملیاں بھی وضع کی تھیں۔صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے کالے دھندوں اور چور بازاری میں ملوث لوگوں کو پھانسی پر لٹکوادیا تھا۔​
نو مہینوں کی شدید لڑائی کے بعد انگریزی فوجوں نے لکھنؤ پر دوبارہ قبضہ کرلیا اور بیگم حضرت محل کو پیچھے ہٹنا پڑا، لیکن انہوں نے اپنی لڑائی مختلف طریقوں سے جاری رکھی۔ وہ انگریزوں سے دو سال تک لڑتی رہیں، جب ان کی فوج نے ان کا ساتھ چھوڑدیا تو انگریزوں نے انہیں کچھ مراعات کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اسے ٹھکرادیا۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام نیم مقبوضہ ریاست نیپال میں گزرے جہاں ان کا 1879ء میں انتقال ہوا۔ ان کے بیٹے کو زہر دے دیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ خاندانی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔​
اپنی کتاب اور حضرت محل کے مختصر تعارف کے بعد کینزی مورد نے حاضرین کو بتایا کہ انہوں نے یہ کتاب کیوں تحریر کی۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت ایک عورت کے انہوں نے بیگم حضرت محل کی کہانی سے جو کچھ محسوس کیا، اسے ضبط تحریر میں لانا چاہتی تھیں۔ باوجود اس کے کہ بیگم حضرت محل کی شخصیت بہت طاقتور تھی اور انہوں نے اپنے دور میں کارہائے نمایاں انجام دیے لیکن انہیں تاریخ کا ایک گمنام کردار بنادیا گیا۔ آج لوگوں کی اکثریت جھانسی کی رانی اور رضیہ سلطانہ کے بارے میں جانتی ہے لیکن بیگم حضرت محل کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ بیگم کو دیگر حکمرانوں کی باقاعدہ مدد حاصل ہوجاتی، یا انہیں کچھ لوگوں کی طرف سے دھوکہ نہیں دیا جاتا تو وہ انگریزوں کو نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوجاتیں۔​
کینزی مورد نے کہا کہ لکھنؤ پر جب انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو انہوں نے اسے بڑی حد تک تباہ و برباد کر ڈالا تھا۔ اُس وقت وہاں ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو بیگم حضرت محل کی کہانی کو بیان کرتا۔ انگریز ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ ایک ایسی عورت کو یا د کیا جائے جس نے دو سال تک انہیں روکے رکھا۔ جب انڈیا آزاد ہوگیا تو بھی انہیں یاد نہیں رکھا گیا، کہ وہ ایک مسلمان عورت تھیں، حالانکہ وہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان برداشت کے رویوں کی وکالت کرتی تھیں۔​
کینزی مورد نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ وہ کس طرح اس کتاب کو لکھنے کے قابل ہوئیں، بتایا کہ ریسرچ کے لیے وہ لندن، آکسفورڈ اور کیمبرج کی لائبریریز گئیں لیکن انہیں وہاں کچھ نہیں ملا۔​
اس کے بعد وہ دہلی گئیں اور انہیں وہاں مختصر معلومات ہی حاصل ہوسکیں۔ جب وہ لکھنؤ پہنچیں تو وہاں انہیں کچھ مطلوبہ مواد جمع کرنے میں کامیابی مل سکی۔ 1960ء کے دوران جب وہ لکھنؤ میں تھیں، ایک شخص ان کے والد سے ملنے آیا تھا۔ وہ بیگم حضرت محل کا پوتا تھا، اور اسی وقت انہیں خیال آیا تھا کہ وہ ایک ایسی شخصیت کو منظر عام پر لائیں گی، جو تاریخ کے گمنام گوشوں کا حصہ بن چکی ہے۔​
کینزی مورد نے کہا کہ لکھنؤ لائبریری سے وہ کچھ ایسی دستاویز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں جس سے بیگم کا لائق ستائش کردار سامنے آسکا۔ تاہم انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ کتاب کا رومانوی باب انہوں نے اپنے تصور سے اختراع کیا ہے۔​
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top