بیکاری
بیکاری یعنی بے روزگاری اس اعتبار سے تو نہایت لاجواب چیز ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی حیثیت کا انسان اپنے گھر میں تمام دنیا سے بے نیاز ہو کر اس طرح رہتا ہے کہ ایک شہنشاہ ہفت اقلیم کو اپنے محل میں وہ فارغ البالی نصیب نہیں ہو سکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ دولت جس کو تمام دنیا کے سرمایہ دار اپنی جان اور اپنا ایمان سمجھتے ہیں ، ایک ایسا مستقل عذاب ہے جو انسان کو کبھی مطمئن نہیں ہونے دیتا۔ سرمایہ داروں کی تمام زندگی بس دو ہی فکروں میں کٹتی ہے ایک یہ کہ اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہوگا؟
یہ دونوں فکریں اپنی اپنی جگہ ایسی مہلک ہوتی ہیں کہ ان کو بھی دق کی منجملہ اقسام کے سمجھنا چاہیے بلکہ دق کی دوسری قسمیں تو معمولی ہیں مثلا پھیپھڑے کی دق ، آنتوں کی دق ، ہڈی کی دق وغیرہ ، مگر یہ فکریں تو دل اور دماغ کی دق سے کم نہیں جن کا مارا ہوا نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے۔بس توند بڑھتی جاتی ہے اور دل چھوٹا ہوتا رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ ان سرمایہ داروں کی زندگی حقیقۃ کشمکش جبر و اختیار میں بسر ہوتی ہے کہ نہ زندہ رہتے بن پڑتی ہے نہ مرنے کو دل چاہتا ہے ، اب رہے غریب ان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے کہ بلا ضرورت پیدا ہوگئے اور جب بھی چاہا مر گئے ، نہ جینے کی خوشی تھی نہ مرنے کا کوئی غم
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ چاہے ہم کو بے روزگاروں کی جماعت گالیاں دے یا سرمایہ داروں کا طبقہ انعام ، لیکن ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ موجودہ دنیا کے لئے بیکاری ایک رحمت ہے ، حالانکہ اس رحمت سے ہندوستان کے علاوہ تمام دنیا کے ممالک چیخ اٹھے ہیں اور ہر طرف سے "ہائے پیٹ ہائے پیٹ" کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں لیکن ہم سچ کہتے ہیں کہ "ہائے پیٹ" کی صدائیں "پیٹ پھٹا" کی صداوں کے مقابلے میں میں پھر بھی قابلِ برداشت ہیں ، لوگ کہیں گے کہ عجیب الٹی سمجھ کا آدمی ہے کہ تر لقمے پر فاقے کو ترجیح دیتا ہے لیکن جناب ہم اس حقیقت سے آشنا ہو چکے ہیں کہ فاقہ اسی وقت تک فاقہ ہے جب تک تر لقمے کی امید انسان کے پیٹ کو جہنم اور معدے کو ربڑ کا بنائے ہوئے ہے لیکن اگر انسان تر لقمے سے خالی الذہن ہو جائے تو یہی فاقہ اس کے لئے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ مرزا غالب مرحوم نے بھی اپنے ایک شعر میں اسی قسم کی ایک بات کہی ہے جس کا ترجمہ ہمارے الفاظ میں یہ ہوا کہ
فاقہ کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتی ہے بھوک
اس قدر فاقے پڑے ہم پر کہ لقمہ بن گئے
ہم جو بات کہنا چاہ رہے ہیں وہ معمولی سمجھ کے انسانوں کے لئے بیکار ہے لہذا اس کا کہنا بھی فضول سی بات ہے ورنہ اس وقت ہم اس قسم کی بلند باتیں کرنا چاہتے ہیں ، ہم تو اس وقت بیکاری کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں جس کے خلاف ساری دنیا میں احتجاج کا ایک شور مچا ہوا ہے۔ بیکاری اچھی چیز ہے یا بری اس کے متعلق ہم اپنے ذاتی خیال کو تفصیل کے ساتھ پیش کریں تو ہم کو اندیشہ ہے کہ یا تو ہماری جان خطرے میں پڑ جائے گی ورنہ یہ تمام دنیا کی تجارت ، کاروبار اور ملازمتیں وغیرہ سب مفلوج ہو کر رہ جائیں گی۔ لہذا دونوں صورتیں ایسی ہیں کہ ذرا ڈر معلوم ہوتا ہے معلوم نہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے ، اس لئے بہترین صورت یہی ہے کہ عام نقطہ نظر سے ہم بھی بیکاری کو برا فرض کرنے کے بعد اپنے خامہ سے "چل بسم اللہ" کہیں۔
بات اصل میں یہ ہے کہ نئی اور پرانی دنیا کو ملا کر جو کرہ ارض بنتا ہے اس میں تین چوتھائی تو بحر الکاہل ، بحر الغافل ، بحر الجاہل وغیرہ کی قسم کے بڑے بڑے سمندر ہیں یعنی پانی ہی پانی۔ اب رہ گئی ایک چوتھائی دنیا جو خدا نظرِ بد سے بچائے خشکی ہے اس چوتھائی دنیا میں لق و دق صحرا ، سر بفلک پہاڑ ، ریگستان جن کو انسان سے کوئی تعلق نہیں بس شترستان کہنا چاہیے اور جھیلیں دریا نالے وغیرہ ہیں۔ باقی جو بچی تھوڑی بہت خشکی اس میں کھیت اور باغ وغیرہ سے بچی ہوئی خشکی کو گاوں ، تحصیل ، پرگنہ ، شہر ، ضلع ، صوبہ ، ملک اور برا عظم وغیرہ میں تقسیم کردیا گیا ہے اور یہ ہے وہ مختصر سی گنجائش جس میں اشرف المخلوقات مع چرندوں پرندوں اور درندوں کے رہتے ہیں۔ اس محدود گنجائش میں آبادی کا یہ حال ہے کہ خدا کی پناہ روز روز بڑھتی جا تی ہے۔ دنیا کی وسعتیں محدود ہیں اور نسل انسانی کی ترقی غیر محدود ، اب جو لوگ بیکاری کا رونا روتے ہیں تو آپ ہی بتائیے کہ دنیا کا قصور ہے یا دنیا میں بسنے والوں کا ، ہاں اگر نظامِ فطرت ہوتا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک آدھ بیگھ زمین بھی پیدا ہوا کرتی تو واقعی بیکاری کے متعلق ہماری تمام شکائیتیں حق بجانب تھیں مگر اب تو ہر نیا پیدا ہونے والا اس چھوٹی سے دنیا میں گنجائش حاصل کرنا چاہتا ہے جو باوا آدم سے لیکر اب تک یعنی از آدم یا ایں دم ایک انچ بھی نہیں بڑھی ، آپ کہیں گے واہ بڑھی کیوں نہیں ، یہ جو کولمبس نے امریکہ کا پتہ لگا کر اس دنیا میں ایک اور اضافہ کیا وہ کدھر گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ پہلے ہی موجود تھا جب تک انسان کی جستجو میں کامیاب ہونے کی صلاحیت پیدا نہ ہوئی وہ پوشیدہ رہا اور اور جب اس کو ڈھونڈا گیا تو وہ مل گیا۔ لیکن اب یہ امید رکھنا کہ کوءی اور امریکہ مل جائے گا غلط ہے اس لئے کہ اب انسان کو بیکاری کے غم نے یا تو اس قدر پست ہمت کر دیا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالنے میں بھی کاہلی سے کام لیتا ہے یا سرمایہ داری نے ایسا دماغ خراب کر دیا ہے کہ مریخ پر حکومت کرنے کی فکر ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی یہ ہوا میں قلعہ بنانے کی جدوجہد میں کامیاب ہو جائے لیکن ابھی تو ہم دنیا سے جا کر مریخ میں آباد ہونے کے لئے تیار نہیں۔
لاحول و لا قوۃ کہاں سے کہاں پہنچے۔ ہاں تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ انسان کی کثرت نے دنیا میں بیکاری کی وبا پھیلا دی ہے ، بات یہ ہے کہ بڈھے تو مرنے کا نام نہیں لیتے اور بچہ پیدا ہونا بند نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آبادی بڑھتی جاتی ہے۔ اب یہ دیکھئے کہ جہاں پانچ بچے تعلیم حاصل کرتے تھے وہاں اب پانچ ہزار تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پہلے تو یہ تھا کہ یہ پانچ بچے پڑھنے کے بعد مختلف جگہوں پر ملازم ہو جاتے تھے ، ملازمت کرتے تھے ، پنشن لیتے تھے اور مر جاتے تھے۔لیکن ان کے امیدوار بجائے پانچ کے پانچ ہزار ہیں ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پانچ تو بدستور برسرِکار ہو جائیں گے ، اب رہے چار ہزار نو سو پچانوے وہ یقینی طور پر بیکار رہیں گے۔ غلطی دراصل حساب کی ہے کہ اب آمد و خرچ برابر نہیں رہا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ ادھر پانچ بچے پیدا ہوئے تو ادھر پانچ بڈھے مر گئے ، ادھر پانچ ملازم ہوئے تو ادھر پانچ ملازموں نے پنشن لے لی ، لیکن اب بڈھوں نے مرنا ترک کر دیا ہے اور بچے برابر پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس صورت میں کوئی بڑے سے بڑا ریاضی دان ہم کو بتائے کہ حساب فہمی کا آخر کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔
اب یہ دیکھئے کہ پانچ ہزار میں سے پانچ کے برسرِروزگار ہوجانے کے بعد جو باقی بچے تھے چار ہزار نو سو پچانوے ، وہ گویا سب کے سب بیکار ہوئے ان بیچاروں کا یہ حال ہے کہ خدا دشمن کا بھی نہ کرے ، ہائے وہ طالب علمی کی امیدیں کہ بس پاس ہوئے اور ڈپٹی کلکٹری اپنے گھر کی لونڈی ہے فارغ التحصیل ہوئے اور آنریبل بنے اگر گورنر نہیں تو ان کے کونسلر تو ضرور ہی ہو جائیں گے لیکن جب پڑھنے کے بعد درخواستیں بھیجنا شروع کیں تو ہر جگہ سے نامنظور ہو کر بواپسی ڈاک گھر آگئیں ، اب بتائیے کہ اس وقت وہ بیچارے کیا کریں ، تو گھبرا کر قانون کا مطالعہ شروع کردیتا ہے کوئی تجارت کی طرف رجوع ہوتا ہے ، کوئی ڈپٹی کلکٹری سے ناامید ہو کر ریلوے میں ٹکٹ کلکٹری کر لیتا ہے ، کوئی بجائے آنریبل ہونے کے کلریکل لائن میں نکل جاتا ہے اور زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو بس ارادہ کرتے ہیں اور بدلتے ہیں ، تجاویز پر غور کرتے اور رہ جاتے ہیں اسکیمیں بناتے ہیں اور رد کرتے ہیں یعنی گھر بیٹھے ہوئے بچوں کو کھلاتے ہیں اور مزے کرتے ہیں ان لوگوں کو عام طور پر بیکار بے روزگار کہا جاتا ہے اور آج کل دنیا ان ہی لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔
یہ دونوں فکریں اپنی اپنی جگہ ایسی مہلک ہوتی ہیں کہ ان کو بھی دق کی منجملہ اقسام کے سمجھنا چاہیے بلکہ دق کی دوسری قسمیں تو معمولی ہیں مثلا پھیپھڑے کی دق ، آنتوں کی دق ، ہڈی کی دق وغیرہ ، مگر یہ فکریں تو دل اور دماغ کی دق سے کم نہیں جن کا مارا ہوا نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے۔بس توند بڑھتی جاتی ہے اور دل چھوٹا ہوتا رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ ان سرمایہ داروں کی زندگی حقیقۃ کشمکش جبر و اختیار میں بسر ہوتی ہے کہ نہ زندہ رہتے بن پڑتی ہے نہ مرنے کو دل چاہتا ہے ، اب رہے غریب ان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے کہ بلا ضرورت پیدا ہوگئے اور جب بھی چاہا مر گئے ، نہ جینے کی خوشی تھی نہ مرنے کا کوئی غم
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ چاہے ہم کو بے روزگاروں کی جماعت گالیاں دے یا سرمایہ داروں کا طبقہ انعام ، لیکن ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ موجودہ دنیا کے لئے بیکاری ایک رحمت ہے ، حالانکہ اس رحمت سے ہندوستان کے علاوہ تمام دنیا کے ممالک چیخ اٹھے ہیں اور ہر طرف سے "ہائے پیٹ ہائے پیٹ" کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں لیکن ہم سچ کہتے ہیں کہ "ہائے پیٹ" کی صدائیں "پیٹ پھٹا" کی صداوں کے مقابلے میں میں پھر بھی قابلِ برداشت ہیں ، لوگ کہیں گے کہ عجیب الٹی سمجھ کا آدمی ہے کہ تر لقمے پر فاقے کو ترجیح دیتا ہے لیکن جناب ہم اس حقیقت سے آشنا ہو چکے ہیں کہ فاقہ اسی وقت تک فاقہ ہے جب تک تر لقمے کی امید انسان کے پیٹ کو جہنم اور معدے کو ربڑ کا بنائے ہوئے ہے لیکن اگر انسان تر لقمے سے خالی الذہن ہو جائے تو یہی فاقہ اس کے لئے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ مرزا غالب مرحوم نے بھی اپنے ایک شعر میں اسی قسم کی ایک بات کہی ہے جس کا ترجمہ ہمارے الفاظ میں یہ ہوا کہ
فاقہ کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتی ہے بھوک
اس قدر فاقے پڑے ہم پر کہ لقمہ بن گئے
ہم جو بات کہنا چاہ رہے ہیں وہ معمولی سمجھ کے انسانوں کے لئے بیکار ہے لہذا اس کا کہنا بھی فضول سی بات ہے ورنہ اس وقت ہم اس قسم کی بلند باتیں کرنا چاہتے ہیں ، ہم تو اس وقت بیکاری کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں جس کے خلاف ساری دنیا میں احتجاج کا ایک شور مچا ہوا ہے۔ بیکاری اچھی چیز ہے یا بری اس کے متعلق ہم اپنے ذاتی خیال کو تفصیل کے ساتھ پیش کریں تو ہم کو اندیشہ ہے کہ یا تو ہماری جان خطرے میں پڑ جائے گی ورنہ یہ تمام دنیا کی تجارت ، کاروبار اور ملازمتیں وغیرہ سب مفلوج ہو کر رہ جائیں گی۔ لہذا دونوں صورتیں ایسی ہیں کہ ذرا ڈر معلوم ہوتا ہے معلوم نہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے ، اس لئے بہترین صورت یہی ہے کہ عام نقطہ نظر سے ہم بھی بیکاری کو برا فرض کرنے کے بعد اپنے خامہ سے "چل بسم اللہ" کہیں۔
بات اصل میں یہ ہے کہ نئی اور پرانی دنیا کو ملا کر جو کرہ ارض بنتا ہے اس میں تین چوتھائی تو بحر الکاہل ، بحر الغافل ، بحر الجاہل وغیرہ کی قسم کے بڑے بڑے سمندر ہیں یعنی پانی ہی پانی۔ اب رہ گئی ایک چوتھائی دنیا جو خدا نظرِ بد سے بچائے خشکی ہے اس چوتھائی دنیا میں لق و دق صحرا ، سر بفلک پہاڑ ، ریگستان جن کو انسان سے کوئی تعلق نہیں بس شترستان کہنا چاہیے اور جھیلیں دریا نالے وغیرہ ہیں۔ باقی جو بچی تھوڑی بہت خشکی اس میں کھیت اور باغ وغیرہ سے بچی ہوئی خشکی کو گاوں ، تحصیل ، پرگنہ ، شہر ، ضلع ، صوبہ ، ملک اور برا عظم وغیرہ میں تقسیم کردیا گیا ہے اور یہ ہے وہ مختصر سی گنجائش جس میں اشرف المخلوقات مع چرندوں پرندوں اور درندوں کے رہتے ہیں۔ اس محدود گنجائش میں آبادی کا یہ حال ہے کہ خدا کی پناہ روز روز بڑھتی جا تی ہے۔ دنیا کی وسعتیں محدود ہیں اور نسل انسانی کی ترقی غیر محدود ، اب جو لوگ بیکاری کا رونا روتے ہیں تو آپ ہی بتائیے کہ دنیا کا قصور ہے یا دنیا میں بسنے والوں کا ، ہاں اگر نظامِ فطرت ہوتا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک آدھ بیگھ زمین بھی پیدا ہوا کرتی تو واقعی بیکاری کے متعلق ہماری تمام شکائیتیں حق بجانب تھیں مگر اب تو ہر نیا پیدا ہونے والا اس چھوٹی سے دنیا میں گنجائش حاصل کرنا چاہتا ہے جو باوا آدم سے لیکر اب تک یعنی از آدم یا ایں دم ایک انچ بھی نہیں بڑھی ، آپ کہیں گے واہ بڑھی کیوں نہیں ، یہ جو کولمبس نے امریکہ کا پتہ لگا کر اس دنیا میں ایک اور اضافہ کیا وہ کدھر گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ پہلے ہی موجود تھا جب تک انسان کی جستجو میں کامیاب ہونے کی صلاحیت پیدا نہ ہوئی وہ پوشیدہ رہا اور اور جب اس کو ڈھونڈا گیا تو وہ مل گیا۔ لیکن اب یہ امید رکھنا کہ کوءی اور امریکہ مل جائے گا غلط ہے اس لئے کہ اب انسان کو بیکاری کے غم نے یا تو اس قدر پست ہمت کر دیا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالنے میں بھی کاہلی سے کام لیتا ہے یا سرمایہ داری نے ایسا دماغ خراب کر دیا ہے کہ مریخ پر حکومت کرنے کی فکر ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی یہ ہوا میں قلعہ بنانے کی جدوجہد میں کامیاب ہو جائے لیکن ابھی تو ہم دنیا سے جا کر مریخ میں آباد ہونے کے لئے تیار نہیں۔
لاحول و لا قوۃ کہاں سے کہاں پہنچے۔ ہاں تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ انسان کی کثرت نے دنیا میں بیکاری کی وبا پھیلا دی ہے ، بات یہ ہے کہ بڈھے تو مرنے کا نام نہیں لیتے اور بچہ پیدا ہونا بند نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آبادی بڑھتی جاتی ہے۔ اب یہ دیکھئے کہ جہاں پانچ بچے تعلیم حاصل کرتے تھے وہاں اب پانچ ہزار تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پہلے تو یہ تھا کہ یہ پانچ بچے پڑھنے کے بعد مختلف جگہوں پر ملازم ہو جاتے تھے ، ملازمت کرتے تھے ، پنشن لیتے تھے اور مر جاتے تھے۔لیکن ان کے امیدوار بجائے پانچ کے پانچ ہزار ہیں ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پانچ تو بدستور برسرِکار ہو جائیں گے ، اب رہے چار ہزار نو سو پچانوے وہ یقینی طور پر بیکار رہیں گے۔ غلطی دراصل حساب کی ہے کہ اب آمد و خرچ برابر نہیں رہا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ ادھر پانچ بچے پیدا ہوئے تو ادھر پانچ بڈھے مر گئے ، ادھر پانچ ملازم ہوئے تو ادھر پانچ ملازموں نے پنشن لے لی ، لیکن اب بڈھوں نے مرنا ترک کر دیا ہے اور بچے برابر پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس صورت میں کوئی بڑے سے بڑا ریاضی دان ہم کو بتائے کہ حساب فہمی کا آخر کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔
اب یہ دیکھئے کہ پانچ ہزار میں سے پانچ کے برسرِروزگار ہوجانے کے بعد جو باقی بچے تھے چار ہزار نو سو پچانوے ، وہ گویا سب کے سب بیکار ہوئے ان بیچاروں کا یہ حال ہے کہ خدا دشمن کا بھی نہ کرے ، ہائے وہ طالب علمی کی امیدیں کہ بس پاس ہوئے اور ڈپٹی کلکٹری اپنے گھر کی لونڈی ہے فارغ التحصیل ہوئے اور آنریبل بنے اگر گورنر نہیں تو ان کے کونسلر تو ضرور ہی ہو جائیں گے لیکن جب پڑھنے کے بعد درخواستیں بھیجنا شروع کیں تو ہر جگہ سے نامنظور ہو کر بواپسی ڈاک گھر آگئیں ، اب بتائیے کہ اس وقت وہ بیچارے کیا کریں ، تو گھبرا کر قانون کا مطالعہ شروع کردیتا ہے کوئی تجارت کی طرف رجوع ہوتا ہے ، کوئی ڈپٹی کلکٹری سے ناامید ہو کر ریلوے میں ٹکٹ کلکٹری کر لیتا ہے ، کوئی بجائے آنریبل ہونے کے کلریکل لائن میں نکل جاتا ہے اور زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو بس ارادہ کرتے ہیں اور بدلتے ہیں ، تجاویز پر غور کرتے اور رہ جاتے ہیں اسکیمیں بناتے ہیں اور رد کرتے ہیں یعنی گھر بیٹھے ہوئے بچوں کو کھلاتے ہیں اور مزے کرتے ہیں ان لوگوں کو عام طور پر بیکار بے روزگار کہا جاتا ہے اور آج کل دنیا ان ہی لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔