بیٹی کے لئے باپ اور بیٹے کے لئے ماں ۔۔۔۔۔۔

عندلیب

محفلین
بیٹی کے لئے باپ اور بیٹے کے لئے ماں​
ثمینہ انصاری (جدہ)
مجھے آج تک یاد ہے میں جب چھوٹی سی تھی اور اپنے پاپا کی بہت لاڈلی تھی ۔ وہ دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلنے سے قبل آواز دیتے کہاں ہے ، میری نادیہ ؟ میں بھاگی ہوئی جاتی ۔ پاپا مجھے گود میں لیکر پیار کرتے ۔ مجھے اتنی خوشی ہوتی کہ سارا دن مسحور سی رہتی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے اپنی امی سے بھی بہت محبت ہے مگر نجانے کیوں ، پاپا کی تو بات ہی کچھ اور تھی ۔

میرا بڑا بھائی ،سلیم امی کا لاڈلا تھا ۔ وہ اسکول سے آنے کےبعد سائے کی طرح امی کے ساتھ لگا رہتا مگر مجھے پاپا کی آمد کا انتظارہوتا تھا ۔ میں امی سے صرف یہ پوچھنے جاتی کہ پاپا کے آنے میں کتنی دیر باقی ہے ؟ وہ مجھے کچھ کھانے کو دیتیں تو میں کہہ دیتی کہ پاپا کے ساتھ کھاؤں گی ۔ میرا دل چاہتا کہ میں اپنے ہاتھوں سے پاپا کو روٹی پکا کر کھلاؤں ، ان کو کپڑے استری کر کہ دوں ، ان کی خدمت کروں ۔
وقت گزرتا گیا میں اور میں میٹرک میں پہنچ گئی ۔ اس وقت تک تو صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ میں نے پاپا کے تمام کام سنبھال لئے تھے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں امی کا ہاتھ بٹانا چاہتی تھی اور دوسری بات یہ کہ مجھے پاپا سے بے حد پیار تھا ۔
اگر کبھی ہمارے والدین میں کسی قسم کی" کھٹ پٹ " ہوجاتی تو مجھے اپنے پاپا پر بے حد رحم آتا اور میرا دل چاہتا کہ میں امی سے کہہ دوں کی اب بس کر دیں ۔ جیسے ہی یہ تنازع ختم ہوتا ، میں پاپا سے کہتی کہ اپنے دل سے امی کی تمام باتیں نکال دیں ۔ میں آپ کو ٹینشن میں نہیں دیکھ سکتی ۔ امی کا موڈ خوشگوار ہوگا میں انھیں سمجھا دونگی اور پھر میں ایسا ہی کرتی تھی ۔
ادھر سلیم بھائی جان امی کو سمجھاتے کہ آپ فکر نہ کریں ، آپ کا بیٹا بڑا ہوگیا ہے ۔ میں آپ کو افسردہ نہیں دیکھ سکتا ۔

ہر روز صبح، شام میں اور شام صبح میں ڈھلتی رہی ۔ وقت گزرنے کاپتہ ہی نہیں چلا ۔ ایک روز پاپا کے قریبی اعزہ کے ہاں سے میرے لئے پیغام آیا ، امی اور پاپا نے ہاں کردی ۔ مجھے صرف اس بات کی خوشی تھی کہ میں پاپا کے رشتہ داروں کے ہاں بیاہ کر جا رہی تھی ۔ شادی کے بعد بھی میرا دل پاپا کی خدمت کے لئے بےچین رہتا تھا ۔ میں آنوں بہانوں میکے آتی ، کام کاج میں امی کا ہاتھ بٹاتی اور پاپا کی خدمت کرتی ۔
میری شادی کو چند سال ہی گزرے تھے کہ پاپا کا انتقال ہوگیا ۔ مجھے ایسا لگا جیسے دنیا سے محبت وشفقت معدوم ہوگئی ۔ اب میں نے تمام توجہ شوہر کی خدمت پر مرکوز کر دی کیونکہ میں میکے جاتی تو اپنے پیارے پاپا کی اس قدر یاد آتی کہ آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلتے مگر میں بھائی جان کو دیکھتی کہ وہ اسی گھر میں امی کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں ۔

اللہ کریم نے مجھے دوبیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ہے ۔ آج پاپا کے انتقال کو بیس برس گزر چکے ہیں ۔ میرے بچپن کی کہانی میرے ہی گھر میں دہرائی جا رہی ہے ۔ میری بیٹی نازش اپنے ابو سے بے حد پیار کرتی ہے ۔ ان کا خیال رکھتی ہت ۔ ان کے دفتر سے آنے کا انتظار کرتی ہے ۔ کھانے کے لئے بلاؤں تو کہتی ہے آپ لوگ کھا لیں ، میں ابو کے ساتھ کھانا کھا لوں گی ۔
یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے ابو کے وہ تمام کام جو میری ذمہ داری تھے، اسی نے سنبھال لئے ۔ وہ نجمی کے کپڑے دھونے ،بوٹ پالش کرنے ، ان کے لئے کھانا اور انہی کی پسند کی چپاتی پکانے کے تمام کام خود ہی کرنے لگی ۔ کبھی کبھار تو وہ نجمی کو جب میں چائے بنا کر دیتی وہ کہتے کہ" تم نے کیوں بنائی ، نازش سے کہو مجھے چائے بناکر دے ۔ اس کی ہاتھ کی چائے کا تو جواب ہی نہیں۔ نجمی کی یہ بات سن کر مجھے غصہ بھی آجاتا مگر میں سوچتی کہ پھر کیا ہوا، بیٹی ہی تو ہے ۔

ادھر میرے دونوں بیٹے میرے ساتھ یوں رہتے جیسے وہ کوئی اور نہیں بلکہ چوکیدار ہیں جو میرے پہرے پر مامور ہیں ۔ نجمی بھی انھیں یہی کہتے ہیں کہ ماں کا خیال رکھا کرو ۔ نازش نہ صرف باپ کا بلکہ دونوں بھائیوں کا بھی بے حد خیال رکھتی ہے ۔سچ پوچھئیے تووہ میری ہی خدمت کر رہی ہے کیونکہ ان کے کام وہ نہیں کرئیگی تو مجھے ہی کرنے پڑے نگے ۔ میں نے یہ صورتحال اپنے ہی گھر میں نہیں دیکھی بلکہ لڑکیوں کا عمومی رویہ یہی دیکھا کہ انھیں باپ سے زیادہ محبت ہوتی ہے جبکہ لڑکے اپنی ماں سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔

اگر ہم ان حقائق کی تحقیق کریں تو یہ امر واضح ہوگا کہ درحقیقت لڑکی میں دوسروں کا خیال رکھنے اور ان کی خدمت کرنے کا جذبہ قدرتی طور پر ہی ودیعت ہوتا ہے جسے "ممتا " کہا جاتا ہے فرق یہ ہے کہ یہ قدرتی جذبہ شادی سے پہلے ماں باپ کی خدمت اورماں بننے کے بعد اولاد کی ممتا کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔ اسی طرح لڑکوں کو ماں سے محبت یوں زیادہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو صنف قوی سمجھتے ہیں ۔ ان کی یہ سوچ بھی قدرت کی عطا کی ہوئی ہوتی ہے ۔ وہ ماں کو، عورت ہونے کےناتے کمزور تصور کرتے ہیں اور اس کا سہارا بننے کے لئے ہر دم گوشاں رہتے ہیں ۔

آپ کو اس بات سے اتفاق ہے یا نہیں ۔
آپ سب بھی اپنے خیالات ضرور شئر کریں ۔
 

زین

لائبریرین
کیا خوبصورت تحریر ہے ۔
بالکل ایسا ہی ہمارے گھر میں ہے جبکہ میں نے اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں‌بھی یہی دیکھا ہے ۔

یہ تحریر پڑھ کر مجھے اپنی بڑی بہن یاد آگئی ہے ۔جس کی ایک سال پہلے شادی ہوگئی ،اللہ پاک انہیں‌ہمیشہ خوش رکھے۔ آمین


اتنی پیاری اور خوبصورت تحریر شیئر کرنے کا بہت بہت بہت شکریہ
 

طالوت

محفلین
حقیقت سے قریب تر تحریر ۔۔۔ اللہ رب العزت نے مرد و عورت کو چاہے کسی رشتے میں پیدا کیا ہو ان کی ایک دوسرے سے محبت بنسبت اپنی جنس کے کہیں زیادہ اور پرخلوص ہوتی ہے ۔۔ تاہم ماں جی مجھے اکثر احساس دلاتی رہتی ہیں:) کہ بیٹے ماؤں سے زیادہ پیار کرتے ہیں ۔۔:)
وسلام
 

تعبیر

محفلین
چلیں میں اپنے خیالات یہاں شیئر کرتی ہوں

مجھے اختلاف تو نہیں ہے پر وقت کے ساتھ ساتھ اور بڑے ہونے پر معاملہ کچھ الٹا ہو جاتا ہے

ماں کو بیٹیاں اپنی سہیلیاں لگنے لگتی ہیں اور باپ کو بیٹا اپنا دوست۔

ہم تین بہنیں ہیں پہلے۔ بھائی بہت دعاؤں اور منتیں کے بعد ہوا تھا پھر بھی ہمیں بابا نے کبھی احساس کمتری نا ہونے دی اور نا ہی بھائیوں کو زیادہ فوقیت ۔ بھائی کی پیدائش کے بعد بھی بابا ہم بہنوں کے ہی زیادہ نخرے اٹھاتے تھے اور اب بھی اٹھاتے ہیں اور لڑائی میں زیادتی کسی کی بھی ہوتی ڈانٹ بھائیوں کو ہی پڑتی تھی ۔ لیکن اب جب ہم بڑے ہو گئے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب بابا بھائیوں کو اپنا دوست زیادہ سمجھتے ہیں اور صلاح مشورہ انہی سے زیادہ لیتے ہیں ۔ جبکہ ہم بہنیں اب امی کی سائیڈ زیادہ لیتی ہیں اور انہی کا ساتھ زیادہ دیتی ہیں بنسبت بابا کے۔ سوائے میری آخری چھوٹی بہن کے وہ کچھ بھی ہو بابا کی پارٹی ہوتی ہے۔
 

زین

لائبریرین
جی ہاں‌۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہنیں والدہ اور بھائی والد کی "پارٹی" میں ہوتے ہیں ۔
:)
 

arifkarim

معطل
اس میں کیا شک ہے کہ کسی مرد کا خدا کے بعد سب سے گہرا رشتہ اسکی ماں‌ہوتی ہے۔ اور عورت کا اسکا باپ! یہ قدرت کے عین مطابق ہے۔ لڑکا ہمیشہ ماں سے اثر قبول کرتا ہے اور لڑکی باپ سے۔
 

نایاب

لائبریرین
بالکل درست اور سچ لکھا ہے بلاشبہ ۔۔
بحیثیت اک باپ کے مجھے واقعی اپنی بیٹی سے بیٹوں کی نسبت زیادہ لگاؤ محسوس ہوتا ہے ۔ یہ بھی نہیں کہ بیٹوں سے پیار نہیں ہے ۔ لیکن اکثر ان کی کلاس لگی رہتی ہے ۔ بیٹے اکثر ہی یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ آپ ماما سے بات کریں ۔ یا پھر مجھے جانا ہے بعد میں بات کروں گا ۔۔۔۔۔اور میری بٹیا رانی کو یہ فکر لگی رہتی ہے کہ میں سکول جاؤں گی تو پاپا آپ بات کس سے کریں گے ۔ گھر بات کرنے میں کسی سبب تاخیر ہوجائے تو اس کا میسج آ جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ پاپا میں ٹھیک ہوں ۔ آپ کیسے ہیں ۔ اور کہاں ہیں ۔ بات کیوں نہیں کرتے ۔
اللہ سوہنا سب بیٹیوں کے نصیب میں اپنی رحمتوں بھری بہاریں مقدر فرمائے آمین
بہت دعائیں
 

جاسمن

لائبریرین
ہمارے ہاں تھوڑا سا مختلف ہے کہ دونوں بچوں کے ووٹ اکثر میری طرف ہوتے ہیں۔ اور بیٹا باپ کے ساتھ زیادہ دوستی لگاتا ہے اور بیٹی میرے ساتھ۔۔۔۔۔
 
Top