مصحفی بیٹھ کر وہ جہاں سے اٹھتا ہے

غزل
بیٹھ کر وہ جہاں سے اٹھتا ہے
ایک فتنہ وہاں سے اٹھتا ہے

نالہ کرتی ہے جس گھڑی بلبل
شعلہ اک آشیاں سے اٹھتا ہے

منہ کو مت کھول ، ورنہ عالم کے
پردہ رازِ نہاں سے اٹھتا ہے

شورِ محشر کہیں ہیں جس کے تیئں
میرے شور و فغاں سے اٹھتا ہے

کشتہء عشق یوں نہیں ٹلتا
مرکے کوئے بتاں سے اٹھتا ہے

چلو اے ہم رہو، غنیمت ہے
جو قدم اس جہاں سے اٹھتا ہے

جمع رکھتے نہیں ، نہیں معلوم
خرچ اپنا کہاں سے اٹھتا ہے

قصہء مصحفی سنا کر یار
عشق اس داستاں سے اٹھتا ہے​
 
Top