بیروزگاروں کا پاکستان

5398a8474d6cc.jpg

فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ رٹو طوطے گریجویٹس پیدا کرنا جاری رکھیں یا پھر اپنی سوچ درست کر کے ٹیکنیکل ایجوکیشن پر توجہ دیں
http://urdu.dawn.com/news/1005781/1...s-for-unemployed-pakistan-adnan-rasool-sbj-aq
بیروزگاری ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے- پاکستان کو درپیش انوکھے چیلنجز کو آپ کیسے بھی دیکھیں، لگتا یہی ہے کہ روزگار کا فقدان ہی سب مسائل کی جڑ ہے- چاہے وہ دہشت گردی معاملہ ہو، صحت کے مسائل ہوں یا سیاسی اتھل پتھل، ہر بحران کے پیچھے اصل مسئلہ روزگار کا جاری بحران ہی ہے-
یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ہو گا کہ مختلف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کچھ نہیں کیا- تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے جو طریقہ کار اپنایا وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ اسے ایک میجر اوورہال بھی ضرورت ہے-
'بیروزگاری' کے حوالے سے ایک پراسرار اور غیر پیداواری سمجھ بھی اس کے وجود کی ایک وجہ ہے حالانکہ اس مسئلے پر مسلسل بڑی بڑی رقمیں لگائی جا رہی ہیں-
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوکریاں پیدا کرنے اور معاشی بہتری کے لئے ہم اپنی اپروچ ٹھیک کریں کیونکہ حالیہ پالیسیاں ہمیں غلط سمت لے جا رہی ہیں-
اس پوسٹ سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں ان تمام اپروچز کو لسٹ کروں جن میں ہم اس وقت پھنسے ہوئے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کروں کہ کیوں یہ ہمارے مقاصد کے لئے کارآمد نہیں- اس کے علاوہ میں ان کا متبادل پیش کرنے کی کوشش بھی کروں گا جو کہ دنیا بھر میں کامیاب ہونے کے باوجود ہماری قوم نے نظرانداز کئے ہوئے ہیں-
سب سے پہلے تو یہ خیال ہی غلط ہے کہ حکومت کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں-
یہ حکومت کا کام ہی نہیں کہ وہ روزگار پیدا کرے- حکومت کا کام تو یہ ہے کہ وہ ایک ایسا ماحول پیدا کرے کہ جس میں نجی ادارے اور بزنسز، پھل پھول سکیں اور اس کے نتیجے میں روزگار کے موقعے پیدا ہوں-
حکومت کی حالیہ کوششوں میں اصل گڑبڑ یہی ہے کہ وہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اس بات کا احساس کئے بغیر کہ پیسہ پھینکنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا بلکہ ایسا کرنے سے صرف یہ غلط تاثر ہی ملتا ہے-
اس حوالے سے گزشتہ سالوں کے دوران مختلف قرضہ اسکیموں کے نام پر خرچ کئے جانے والے فنڈز کی مثال لے لیں- ہر کیس میں حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک بہت بڑی نوکر شاہی کی فوج پیدا ہو جاتی ہے جو کہ حکومت کے سیاسی مفادات کے نام پر پیسہ خرچ کر رہی ہوتی ہے-
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی مثال لے لیں، ایک ایسا پروگرام جس کا انکم سپورٹ والا جزو خاصا کارآمد ہے اور اس کا اثر بھی ہو رہا ہے (محدود علاقوں میں سہی) پر قرضہ اسکیم کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے لہٰذا حکومت اسے جاری رکھنے پر مجبور ہے-
ایسے کیس میں ٹیکس دینے والے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے پیسہ دے رہے ہیں جبکہ اصل میں ہو یہ رہا ہے کہ روزگار کے مناسب مواقع تو پیدا ہو نہیں رہے لیکن سیاستدان اپنے اپنے حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ مظبوط کرنے کے لئے اسے استعمال کر رہے ہیں-
کچھ ایسا ہی معاملہ زیادہ تر دیگر اسکیموں کا بھی ہے جن کا بنیادی مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے- اصل گڑبڑ یہ ہے کہ پیسہ صرف لٹایا جا رہا ہے بجائے اس کے کہ اس پیسے کو موجودہ اور نئے برنسز کے فروغ اور استحکام کے لئے استعمال کیا جائے-
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، پھر بھی ایسا کیوں کرتی ہے؟
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے یہ حکومت کی بہترین چال ہے اور بس-
دوسرا یہ نظریہ کہ روایتی تعلیم سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار حاصل ہو گا-
یہ بھی درحقیت ایک فرسودہ خیال کے سوا کچھ بھی نہیں جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے- زیادہ تر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم، بہترین نوکریاں حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے-
اس غلط مائنڈ سیٹ کی وجہ سے ڈگری فراہم کرنے والی ایسی فیکٹریاں قائم ہو گئی ہیں جہاں طالب علم، 'ایم سی کیوز' کے ذریعے جاب مارکیٹ میں داخل ہونے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور جس سے ایک ایسی مارکیٹ نے جنم لے لیا ہے جس میں زیادہ تر افرادی قوت کو آپس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان سب کی صلاحیتیں ایک جیسی ہیں-
'ایک سائز سب کے لئے' والے اس رجحان نے ڈگری یافتہ نوجوانوں کی ایک فوج ظفر موج پیدا کر دی ہے جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کیا چاہئے اور وہ ایک دوسرے میں فرق کرنے کے قابل بھی نہیں-
ایسی صورتحال میں خاص طور پر جب نئے مواقع بھی پیدا نہ ہو رہے ہوں، آجر چاہتے ہیں کہ انہیں سب سے سستا امیدوار مل جائے کیونکہ ان کے خیال میں تمام کے تمام امیدوار آخر ایک ہی فیکٹری کی پیداوار ہیں-
اس مسئلے کو مزید پیچدہ کرنے کے لئے 'انڈر ایمپلائمنٹ' کا معاملہ بھی ہے یعنی زیادہ کوالیفائیڈ لوگ بنیادی نوکریاں کر رہے ہیں- لہٰذا آئندہ جب بھی ہم اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے شیخیاں بگھاریں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ صرف زیادہ یونیورسٹیاں اور کالج قائم کرنے سے طویل مدت میں زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضمانت نہیں ملتی-
اور آخر میں نیا کاروبار شروع کرنے کا جنون بھی غلط ہے-
گو کہ یہ خیال بنیادی طور پر اچھا اور قابل تعریف ہے تاہم اس خیال میں بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں مقامی آبادی کی کاروباری صلاحیت اور قابلیت یا ENTREPRENEURIAL SKILLS کو 'اوراسٹیمیٹ' کیا جاتا ہے-
کاروباری صلاحیت اور قابلیت، پروڈکشن کے حوالے سے ایک اہم فیکٹر ہے اور جس کسی نے بھی معاشیات پڑھی ہے اسے علم ہو گا کہ پروڈکشن کے تمام ہی فیکٹر نایاب ہوتے ہیں-
یہ تاثر کہ معیشت ایک دم صحیح ہو جائے گی اگر ریاست سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں نئے کاروبار شروع کروانے کے لئے پیسے لگائے گی پاگل پن کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کی نشاندہی ایک بارہ سالہ بچہ بھی کر سکتا ہے-
ذرا سوچیں تو یہاں بنیادی منطق یہ ہے کہ اگر آپ کو نوکری نہیں مل رہی تو آپ کو اپنا کاروبار شروع کر دینا چاہئے- اور اگر آپ یہ راستہ اختیار کرتے ہیں تو حکومت اس کے لئے خرچہ اٹھانے کو تیار ہے-
اور اصل مسئلہ یہی ہے- علمائے معاشیات اور خاص تو پر ایک فوربس رپورٹ کے مطابق دس میں سے آٹھ شروع کئے جانے نئے کاروبار اپنی ابتدا کے اٹھارہ ماہ کے دوران ہی ناکام ہو جاتے ہیں-
اب اس معاملے کو ذرا اس طرح دیکھیں، اگر حکومت نئے کاروبار کے لئے لوگوں کو ایک لاکھ روپے کے ایک لاکھ قرضے دینے کی پلاننگ کرتی ہے تو اس میں سے اسی ہزار قرضے یعنی 8,000,000,000 روپے تو ابتدائی اٹھارہ ماہ کے دوران ہی ڈوب جانے ہیں-
اب اگر بقیہ بیس ہزار قرضوں کی وجہ سے حقیقت میں نئے کاروبار پنپ جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کاروبار کے ذریعے اوسطآً پانچ افراد کو روزگار بھی ملتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل میں حکومت کو ایک لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے 10,000,000,000 روپے خرچ کرنا پڑے یعنی ایک لاکھ روپے فی نوکری-
بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے اور ہماری حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس سے کھیل رہی ہیں- اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنے اور اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہر کسی کے لئے کارآمد نہیں- بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے ٹیکنیکل تعلیم زیادہ بہتر ہوتی ہے جس سے انہیں اصلی روزگار حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے بجائے اس کے کہ انہیں رٹو طوطوں کی طرح کے گریجویٹس میں تبدیل کر دیا جائے-
جرمنی، فرانس، کینیڈا اور دیگر ترقی یافتہ اقوام تکنیکی تعلیم کو نہ صرف خصوصی توجہ دیتی ہیں اور اس میں سرمایہ کاری کرتی ہیں جس سے نہ صرف مستقل روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ ان تکنیکی اداروں کے طالب علموں کے لئے نئے کاروبار شروع کرنے کے بھی مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے-
اس کے علاوہ، اپرنٹس شپ پروگرامز اور ٹیکس کریڈٹ پروگرامز بھی یورپ اور امریکہ میں کارآمد رہے ہیں-
ان پروگرامز کا اصل آئیڈیا یہ ہے کہ جب بھی پرائیویٹ سیکٹر کسی گریجویٹ کو نوکری دیتا ہے یا کسی کو اپرنٹس شپ پر رکھتا ہے تو اسے ٹیکس کی مد میں خصوصی چھوٹ دی جاتی ہے- ایسے کسی بھی کیس میں روزگار کے موقع پیدا کرنے کے لئے نجی سیکٹر میں اس کی لاگت کہیں کم ہوتی ہے جبکہ حکومت کو ایسے مواقع پیدا کرنے کے لئے خاصا خرچہ کرنا پڑتا ہے-
آخر میں، لیکن سب سے اہم یہ کہ اگر ہم اس مسئلے کے حل کے لئے واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں اپنے حساب کتاب میں سب سے پہلے 'انڈرایمپلائمنٹ' کے اصل اعدادوشمار کا حساب کرنے کی ضرورت ہے-
جو بھی کہیں اصل بات یہ ہے کہ ہماری معیشت ہماری ضروریات کی مناسبت سے روزگار کے مواقع پیدا نہیں کر پا رہی اور اگر حکومت یہ کام کر رہی ہے تو اس کا براہ راست اثر پبلک ڈیٹ (PUBLIC DEBT) پر پڑ رہا ہے جو کہ پہلے ہی مضحکہ خیز حد تک بہت زیادہ ہے- (2012 کے اندازوں کے مطابق ہمارے جی ڈی پی کا 62 فیصد بنتا ہے)-
یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ یا تو ہم ایک اندھے کنویں میں پیسے ڈالنے کی طرح رٹو طوطے گریجویٹس پیدا کرنا جاری رکھیں یا پھر اپنی سوچ درست کر کے ٹیکنیکل تعلیم پر توجہ دیں جس میں اپرنٹس شپ پروگرامز اور ٹیکس کریڈٹس شروع کیے جائیں اور 'انڈر ایمپلائمنٹ' کا مسئلہ حل ہو-
اور اگر یہ نہیں تو پھر ہم ایک دوسرے پر الزام دھرنے کا کھیل جاری رکھ سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب بیروزگاری کی وجہ سے پاکستان کے لوگ جرائم اور کرپشن کی دلدل میں دھنستے جائیں-
 
پاکستان - بے روزگاری کی شرح
موجودہ اقدار، تاریخی اعداد و شمار، کی پیشن گوئی، اعداد و شمار، چارٹ اور معاشی کیلنڈر - پاکستان - بے روزگاری کی شرح.

2014 2013 2012 2011 2010 2009 2008 2007 2006 2005 2004 2003 2002 2001 2000 1999 1998 1997 1996 1995 1994 1993 1992 1991 1990 1989 1988 1987 1986 1985 2014 2013 2012 2011 2010 2009 2008 2007 2006 2005 2004 2003 2002 2001 2000 1999 1998 1997 1996 1995 1994 1993 1992 1991 1990 1989 1988 1987 1986 1985 کا موازنہ کریں
برآمدAPI EMBED

pakistan-unemployment-rate.png



لیبرآخریپچھلاسب سے اونچاسب سے کمیونٹ
بے روزگاری کی شرح6.006.307.803.10فیصد[+]
ملازم افراد56010.0053840.0056010.0026961.00ہزار[+]
بے روزگار افراد3730.003400.003730.00903.00ہزار[+]
آبادی184.00178.91184.0045.85لاکھ[+]
[+]
 
نوجوان نسل، تعلیم اور روزگار کے درمیان فاصلے

نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کئی قسم کے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ تعلیم اور روز گار کے حصول کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ماہرین ان فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مسئلہ اس قدر گھمبیر ہو چکا ہے کہ اسے گلوبل کرائسز میں شمار کیا جانے لگا ہے لیکن ایک عجیب پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ بے روزگاری میں اضافے کی وجہ محض یہ نہیں ہے کہ روز گار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ یہ وجہ بھی ہے کہ ہنر مند افراد تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور ایسی آسامیاں خالی پڑی ہیں جن کے لیے متعلقہ اہلیت کی افرادی قوت ہی میسر نہیں ہے۔
یورپ کے بیشتر حصوں اور مشرقِ وسطیٰ میں 15 سے 24 سال کے نوجوانوں کی ایک چوتھائی تعداد روز گار سے محروم ہے۔ سپین اور مصر کو تو اس حوالے سے تاریک مقامات (Black Spots) کا نام دیا گیا ہے جہاں بے روز گار نوجوانوں کی تعداد نصف سے بھی زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں کم و بیش 75 ملین نوجوان بے روز گار بتائے جاتے ہیں اور اس تعداد کا تقریباً دوگنا ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں محض ادھورا سا روزگار حاصل ہے۔
نوجوانوں کو لاحق ان مسائل کا المیاتی پہلو محض یہی نہیں ہے کہ پیداواری صلاحیت کا حامل نوجوان طبقہ اپنی عمر کے بہترین حصے میں دوسروں کا محتاج و دست نگر ہو کر معیشت کے لیے ایک بھاری نقصان کا ذریعہ بن رہا ہے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی بے روزگاری کا یہ مسئلہ سماجی انتشار کا ایک مستقل منبع بھی ہے اور انفرادی سطح پر ہر ایک کے لیے احساس جرم میں مبتلا کرنے والے کرب کا ذریعہ بھی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جاپان میں 700,000 نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے معاشرے سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔
لیکن تمام معاشرے ایک عجیب قسم کے تصادم کا شکار ہیں۔ بے روزگاری کے اس المیے کے باوجود بیشتر کمپنیوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے کہ انہیں ہر آسامی کے لیے متعلقہ اہلیت کے افراد میسر نہیں۔ Manpower نامی ایک ایمپلائمنٹ سروسز فرم کی سال رواں میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے تقریباً ایک تہائی ایمپلائز کو روز گار کی آسامیوں پر بھرتی کرنے کے لیے اہل افراد کی کمی کا سامناتھا۔
روزگار کی آسامیوں کے لیے متعلقہ اہلیت کے حامل افراد کی اس کمیابی نے صرف انجینئرنگ جیسے شعبوں ہی میں ایمپلائز کو دباؤ اور پریشانی کا سامنا کرنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ آفس ایڈمنسٹریشن جیسے درمیانے درجے کی آسامیوں کے لیے بھی انہیں اہل افراد میسر نہیں آ سکے۔ ایک کنسلٹینسی فرم کی رپورٹ کے مطابق امریکہ، برطانیہ، برازیل، جرمنی، انڈیا، میکسیکو، مراکش، سعودی عریبیہ اور ترکی جیسے 9 ممالک میں بھی صرف 43 فیصد ایمپلائرز یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں مطلوب اہلیت و مہارت کے Entry Level ورکرز دستیاب ہو سکتے ہیں جبکہ 50 سے 500 کے درمیان ورکرز رکھنے والی درمیانے درجے کی فرمز کے پاس Entry Level کے اوسطاً 13 آسامیاں خالی تھیں جبکہ بڑے ایمپلائرز کے پاس اوسطاً 27۔
اس مسئلے کی بڑی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ دنیا بھر میں کسی نہ کسی طرح تعلیمی ادارے اور ایمپلائرز دو الگ الگ منطقوں میں رو بہ عمل ہیں اور اس مسئلے کے حل کا بڑا حصہ دونوں منطقوں کو اکٹھا کر دینے سے وابستہ ہے۔ مسئلے کے حل کو اس زاویے سے دیکھا جا رہا ہے کہ ایجوکیٹرز کو مجبور کیا جائے کہ وہ ایمپلائرز کی جگہ کھڑے ہو کر سوچیں اور ایمپلائرز کو مجبور کیا جائے کہ وہ ایجوکیٹرز کی جگہ کھڑے ہو کر سوچیں اور سٹوڈنٹس کو چاہیے کہ وہ ان دونوں کے درمیان خود کو مربوط رکھیں اور اس کا بہترین طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ ووکیشنل ایجوکیشن کو نئی قوت دے کر مضبوط کیا جائے۔ ووکیشنل ایجوکیشن کے حوالے سے یہ توجہ بھی دلائی گئی ہے کہ اسے بعض ممالک میں ایجوکیشن سسٹم کا مختلف رنگ والا سوتیلا بچہ سمجھا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومتیں تعلیمی ترقی کے لیے یونیورسٹیوں پر سرمایہ اُنڈیلتی ہیں اور یونیورسٹیاں خود اپنی تعریفوں کے پل باندھنے میں لگی رہتی ہیں۔ نتیجتاً والدین اپنے بچوں کو ووکیشنل تعلیم سے الگ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سروے کے مطابق بہت سے سٹوڈنٹس کو اکیڈمک سکولز کی جانب زیادہ راغب پایا گیا۔ اُن کے اس خیال کے باوجود کہ انہیں ووکیشنل تعلیم کے حصول کے بعد روزگار ملنے کے کہیں زیادہ امکانات تھے۔ مستقبل پر گہری اور دور تک نظر رکھنے والے ممالک سکولز اور فرمز کو نئی قوت ایجاد دینے میں سر گرم عمل ہیں۔ جنوبی کوریا کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں ووکیشنل سکولز کا گویا جال بچھا دیا گیا ہے اور اسی طرح جرمنی میں بھی، تا کہ مشین آپریٹرز اور پلمبرز جیسی جابز کی کمی پر قابو پایا جا سکے۔ ٹیکنیکل سکولز اب ہوبہو ورکشاپس کی طرز پر تعمیر ہو رہے ہیں تا کہ تھوری اور پریکٹیکلز کی تقسیم کے فاصلے کو آسانی سے عبور کیا جا سکے۔
اگرچہ تعلیم اور روزگار کے درمیان موجود فاصلوں کو عبور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن اگر ٹیکنالوجی کی رفتار کو تعلیمی پروگرامز کی رفتار کے مقابلے میں تیز ترین بھی تعلیم کیا جا رہا ہے تو اس سوال کی ایک اہمیت ہو گی کہ کیا ٹیکنالوجی کی تبدیلی و تیز رفتاری اور تعلیمی پروگرامز کی رفتار کے درمیان مطابقت پیدا کرنا ممکن بھی یا نہیں؟ جس طرح ٹیکنالوجی ہر آن اپنی جہات اور اہداف بدل رہی ہے کیا تعلیمی اداروں کے کورسز بھی اسی رفتار سے اپنی جہات بدل سکتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہو سکتا (اور ظاہر بھی یہی ہو رہا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہو سکے گا) تو سرمایہ داروں اور حکمران سیاستدانوں کو یہ سوچنا پڑے گا کہ جمہوریت کے نام کی اوٹ میں ان کا یہ گٹھ جوڑ اُن کو کب تک عوامی غیظ و غضب سے محفوظ رکھ سکے گا۔
کیا ویلفیئر سٹیٹ کی طرز کا کوئی اور فریب تیار کیا جائے گا؟ یہ آدم خور ڈیمو کریٹک کیپیٹل ازم آخر کس قیمت پر سرمایہ دار کو ہزاروں گنا زیادہ منافع لوٹاتا رہے گا؟ کیا انسانوں کو زندہ نگل جانے کی قیمت پر؟ دنیا بھر کے بے روزگار نوجوانوں کا سیلاب انہیں بہا کر بھی لے جا سکتا ہے اور شاید وہ وقت قریب ہی ہو!
 
86535-EducationPhotoFile-1360005239-298-640x480.JPG

اعلا تعلیم کے بعد باعزت مقام پانے کی خواہش ہی نچلے طبقوں کو اس کی طرف آمادہ کرتی ہے ۔ فوٹو : فائل

تعلیم اور روزگار، دو مختلف چیزیں ہونے کے باوجود ان میں ایک خصوصی تعلق پایا جاتا ہے۔

لیکن ہمارے ہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملازمت نہ دینے والی تعلیم کی تو کوئی گنجایش ہی نہیں ہے۔ جوں ہی کسی شعبے کی کھپت میں کمی واقع ہوتی ہے اس کی تعلیم کا رجحان خاتمے کے قریب پہنچ جاتا ہے۔

عموماً لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ایسی تعلیم حاصل کی جائے جو اعلا سے علا تر ملازمت دلوا سکے۔ اس مقصد کے لیے اکثر فطری رجحانات کا گلا گھوٹ دیا جاتا ہے اور جیسے تیسے مطلوبہ تعلیمی معیار حاصل کیا جاتا ہے تاکہ اصل منشا حاصل ہوسکے۔ اس کے بعد بھی اگر کسی وجہ سے روزگار اور ملازمت کے حوالے سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے تو نتیجہ شدید مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا فائدہ ہوا اتنا پڑھنے کا؟ یا جب یہ ہی کام کرنا تھا تو پھر خوامخواہ تعلیم میں وقت کیوں ضایع کیا؟

ایسی صورت حال کی وجہ ظاہر ہے، یہ طے شدہ سوچ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمیں معاشی مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا یا بہتر ملازمت مل سکے گی۔ معاشرے کے متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ جب اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلا رہے ہوتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ مستقبل میں نہ صرف وہ آسودہ ہوں گے بلکہ ان کے بچے بھی پُرسکون زندگی گزاریں گے۔ تاہم، جب طویل عرصے تک مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی وہی صورت حال سامنے آئے تو اضطراب پیدا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔

پھر ایک تعلیم یافتہ فرد ہونے کے ناتے ان کی حساسیت اور شعور ایک اَن پڑھ یا کم تعلیم یافتہ فرد سے کئی گنا بڑھ چکا ہوتا ہے، لہٰذا اسی تناسب سے وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور ان کی خود اعتمادی کو ایسا گہن لگتا ہے کہ ساری قابلیت اور صلاحیت بھی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں جب انہیں یہ مشورے دیے جائیں کہ ’’کہیں بھی محنت مزوری کرلو یا اپنے شعبے کے برعکس کوئی دوسری نوکری کرلو‘‘ تو ان کی ذہنی اذیت اور کوفت مزید کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ کیوںکہ یہ نصیحت کرنے والے معاشرے کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لاکھوں روپے تنخواہ حاصل کرنے والوں کے لیے تو یہ باتیں فقط الفاظ کی جُگالی ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے کالموں اور مضامین میں دُہراتے رہتے ہیں اور جی بھرکے اعلا تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کاہل اور کام چور جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔

محنت کی عظمت کے یہ سبق تو طالب علم پہلی جماعت کے نصاب سے پڑھتے آرہے ہیں۔ مسئلہ دراصل اس معاشرے کا ہے جہاں یہ باتیں صرف کتابوں میں ملتی ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ طلبہ کو محنت کے مشورے دینے والے بزعم خود عملاً کسی مزدور کی کتنی عزت کرتے ہیں؟ کسی پتھارے دار اور ٹھیلے والے کی توقیر ان کی نظر میں کیا ہے؟ اسی پر قیاس کرتے چلے جائیں تو ایسے بقراطوں کے تضادکے نمونے ملتے چلے جائیں گے اور ساتھ ساتھ اعلا تعلیم کے بعد اچھی اور باعزت ملازمت کے لیے دربدر ہونے والے نوجوانوں کے مسئلے کی وجہ بھی سامنے آجائے گی۔

ہمیں ’’محنت میں عظمت‘‘ کے اسباق تو پڑھائے جاتے ہیں مگر طبقات میں تقسیم معاشرے میں حقیقی صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ لوگ نچلے پیشوں کو اپنانے والے رشتہ داروں سے ملنا تک گوارا نہیں کرتے جس سے معاشرے کے ایک عام محنت کش کے مرتبے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اعلا تعلیم کے بعد باعزت مقام پانے کی خواہش ہی نچلے طبقوں کو اس کی طرف آمادہ کرتی ہے لیکن جب صورت حال ایسی ہو تو تعلیم کی طرف رغبت کی حوصلہ شکنی ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے طالب علم بیرون ملک جاکر وہ چھوٹے موٹے کام بھی کرلیتے ہیں جنہیں ہمارے یہاں قابل ہتک سمجھا جاتا ہے، اس لیے کہ وہاں ایسا کرنے سے ان کی سفید پوشی اور عزت پر کوئی حرف نہیں آتا۔

تعلیم کسی بھی فرد کو شعور جیسی نعمت سے مالامال کرتی ہے۔ تاہم، اسے خالصتاً معاشی نقطۂ نظر سے دیکھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ موجودہ شرح تعلیم اور معاشی صورت حال کے تناظر میں ہم اسے فکرِ معاش سے قطعی طور پر الگ بھی نہیں کر سکتے۔ تعلیمی لحاظ سے نہایت پس ماندہ حالات اور اعلا تعلیم کی شرح ایک فی صد سے بھی کم ہونے کے باوجود ریاست معاشرے میں انہیں درست طور پر کھپانے میں ناکام ہے۔ اگرچہ بھیڑ چال کا بھی مسئلہ ہے مگر مجموعی طور پر جب ہمارے طلبہ کی ایک محدود تعداد ہی جامعات تک پہنچ پاتی ہے اور اسے بھی اپنے شعبے میں روزگار کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو یقینی طور پر یہ حکام بالا کی سنگین غفلت ہے۔ پھر ہم ایک ترقی پذیر معاشرے میں رہ رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے پیشوں کو کم تر سمجھا جانے کے باعث تعلیم یافتہ نوجوان اس کا رخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب ہم اپنے ملک میں معیار تعلیم کو قابل قدر سطح تک لے آئیں گے تو یقیناً اس سے یہ روش بھی بدلنے میں مدد ملے گی۔

تعلیم اور روزگار کا یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ہر شعبہ ہائے زندگی میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ اس کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہر شعبے کے ماہرین تیار کیے جائیں تاکہ پہلے سے جمع کردہ اعداد وشمار کی روشنی میں ہمیں ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، استاد اور دیگر سماجی وسائنسی علوم کے ماہرین مل سکیں تاکہ ایک طرف ہم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کر سکیں تو دوسری طرف ’’تعلیم یافتہ بے روزگاری‘‘ جیسے مسئلے سے بھی گلوخلاصی ہو۔ جس کے بعد بتدریج شرح خواندگی اور تعلیمی میدان میں ترقی کی راہیں کھُلتی چلی جائیں اور ’’تعلیم برائے ملازمت‘‘ کے نظریے کو بدلنے میں بھی مدد ملے، ورنہ اس وقت سرکاری سطح پر پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم کے لیے بھی من پسند پیشہ یا روزگار اختیار کرنے کی ضمانت موجود نہیں ہے جو ملک سے جہالت کے اندھیرے دور کرنے والے دانشوروں سمیت، حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
 
بیروزگاری کا خاتمہ اور ٹیکنالوجی
495x278x9552_74638030.jpg.pagespeed.ic.Fq7lEg_coA.jpg

عبدالحئی

گذشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں معلومات اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کے شعبے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کچھ عرصے سے یہ مشاہدہ عام ہے کہ متعدد یونیورسٹیاں اور تربیتی ادارے طلباء کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خصوصی تربیت کے پر کشش پیکج فراہم کر رہے ہیں ۔اسی اہمیت کے پیش نظر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بڑھتی مانگ کو پورا کرنے کیلئے آئی ٹی کے عالمی اداروں نے پاکستان میں اپنے خصوصی پروگرامز متعارف کروائے تاکہ پاکستانی عوام کو اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے ۔ پاکستانی عوام آئی سی ٹی سیکٹر میں تیزی سے ترقی کا سفر طے کر رہی ہے جسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قوم جلد وہ مقام حاصل کر لے گی جو اسے درکار ہے فی الحال ابھی منزل دور ہے جس کیلئے سخت محنت کرنا ہو گی۔بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے عفریت اور مختلف دبائو کے باوجود معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کو اس وقت جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ ہے اس کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے روزگاری ، ایک محتاط اندازے کے مطابق جب ہم نوجوان نسل کی طرف دیکھتے ہیں خصوصاً جن کی عمریں 30سال کے اندر اندر ہیں وہ کل آبادی کا دو تہائی حصہ ہیں اور بری طرح سے بے روزگاری کا شکار ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت کی ایک وجہ نوجوان نسل میں پائی جانیوالی بے روزگاری بھی ہے معاشرے کو اس ناسور سے پاک کرنے کیلئے اس کا جلد از جلد دیرپا اور پائیدار حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ بھوک ، افلاس سے تنگ پریشان حال نوجوان تیزی سے جرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں انہیں جرائم کے چنگل سے نجات دلانے کیلئے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی تعداد کو بڑھانا ہو گا ۔ یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ تعلیم یافتہ گریجویٹ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے نوکریوں کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور انہیں نوکری نہیں ملتی ۔ بیروزگاری صرف گریجویٹ نوجوانوںکا مسئلہ نہیں المیہ تو یہ ہے کہ انجینئرز ، آئی ٹی سپیشلسٹس اور ایم اے پاس نوجوان بھی بہتر روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ۔ یہاں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بے روزگاری قوم کو درپیش اہم مسائل میں سے ایک ہے ۔ جہاں نوجوانوں کو یہ شکایت عام ہے کہ انہیں روزگار کے وہ مواقع میسر نہیں جتنے انہیں درکار ہیں وہیں دوسری جانب ادارے یہ گِلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ عالمی معیار کا مقابلہ کرنے کیلئے انہیں مارکیٹ میں وہ وسائل دستیاب نہیں جن کی انہیں ضرورت ہے۔آئی ٹی کی سطح پر دیکھا جائے تو یہاں بھی قوم کو ایسے ہی مسائل درپیش ہیں ۔ اصل میںاس محاذ پرایک قوم کے طور پر مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے پاس پیشہ ور آئی ٹی ماہرین کی کمی ہے۔ آئی ٹی پروفیشنلز وہ طاقت ہیں جن کے ذریعے عالمی معیار کا بہتر مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور بد قسمتی سے ہمارے پاس ان کی شدید قلت ہے ۔ ہمارے پاس عالمی مارکیٹ میں دستیاب ہنر مند وسائل نہیں ہیں۔ بھارت اس سلسلے میں ہم سے آگے ہے اور مشرقی یورپ کے ممالک کی طرح ہر گزرتے دن کیساتھ آئی ٹی آؤٹ سورسنگ کیلئے ایک بلاک کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ وقت کا تقاضاہے کہ اب ہم جلد یہ فیصلہ کر لیں کہ ہمیں روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہے؟ یا ہم زیادہ توجہ خصوصی پیشہ ور افراد بنانے پر مرکوز کرتے ہیں؟میری رائے میں ہمیں ان دونوں شعبوں پر بھرپور اور بیک وقت توجہ دینا ہو گی۔ ہمیں فوری طور پر تربیت یافتہ آئی ٹی ماہرین کو میدان میں اتارنا ہو گا تاکہ مارکیٹ میں نیا ٹیلنٹ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکے۔ ایسا ممکن ہو گیا تو کمپنیاں خود بخودروزگار کے دروازے کھولنے پر مجبور ہو جائیں گی اورملک میں نافذ لیبر قوانین نوجوانوںکو ان کے روزگار کے حقوق کی ضمانت بھی فراہم کر پائیں گے ۔ پاکستان میں دستیاب 3G اور 4G کی خدمات کے ساتھ، ہنر مند پاکستانی اب اپنی مصنوعات اور خدمات کی بدولت مقامی اور عالمی مارکیٹوں دونوں میںاپنے لئے نیا مقام تلاش کر سکتے ہیں ۔ پاکستان آئی سی ٹی کے شعبے میں تیز ی سے ترقی کر رہا ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر بہت سی بین الاقوامی کمپنیاں اور ادارے اپنے بہترین اور جدید ترین آئی ٹی وسائل کیساتھ یہاں قدم جمانے میں مصروف عمل ہیں اور بیشتر کمپنیاں پاکستان کو اپنا نیا مسکن بنانا چاہتی ہیں ۔ پاکستان اس وقت آئی سی ٹی کی دنیا میں توجہ کا مرکز بن چکا ہے ۔ آئی ٹی کے میدان میں شاندار مستقبل پاکستانی نوجوانوںکا منتظر ہے جو انہیں بے روزگاری کی دلدل سے بھی نکال لے گا ۔مختلف کمپنیاں جیسے دنیا بھر میںاپنے آئی ٹی ماہرین کے ذریعے فاصلوں کو تیزی سے سمیٹتے ہوئے ترقی کی سفر پر رواں دواں ہیں بالکل اسی طرح لاہور ، کراچی، اسلام آباد ہی نہیں بلکہ ملتان ، پشاور، فیصل آباداور پاکستان کے دور دراز علاقے بھی ترقی کے ثمرات سے فیض یاب ہو سکتے ہیں ۔ جہاں تک روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا معاملہ ہے تو ان سے صرف وہی نوجوان فائدہ اٹھا سکیں گے جو اس قابل ہونگے کہ انہوں نے کس حد تک خود کو روزگار حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے۔ صرف ہماری نوجوانوں کو درست سمت دکھانے کی ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں بی اے اور ایم اے پاس نوجوانوں کی فوج تیار کرنے کی بجائے آئی ٹی کی بدلتی دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے ماہر نوجوان مارکیٹ میں لائیں تو حالات میں انقلابی تبدیلی آ جائیگی ۔روزگار کے فوری مواقع بھی پیدا ہونگے اور نوجوان نسل سے مایوسی اور جرائم دونوں کا بیک وقت خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا ۔ اچھے مواقع ایک مضبوط بنیاد فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ آئی ٹی کی با مقصد تعلیم ، با مقصد اور با عمل اداروںکے اشتراک سے ہم بین الاقوامی برادری میں پاکستانی قوم کو وہ مقام دلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیںجو ہمارا حق ہے ۔
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-06-21/9552#.U6Us4ZSSzbg
 
خودکش حملہ آور
پاکستان میں بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے‘ ملک میں ایک کروڑ 45 لاکھ پڑھے لکھے‘ ڈگری ہولڈر بے روزگار ہیں
جاوید چوہدری بدھ 2 جولائ 2014

وہ شہری یونیورسٹی تھی اور ایم اے ماس کمیونی کیشن کے فائنل ائیر کی کلاس تھی‘ میں لیکچر کے لیے وہاں گیا تھا‘ میں نے کلاس سے پوچھا ’’وہ تمام خواتین وحضرات ہاتھ کھڑے کریں جنھیں ڈرائیونگ آتی ہے‘‘ ستر طالب علموں میں سے 12 طلبہ اور طالبات نے ہاتھ اٹھائے‘ میں نے پوچھا ’’ آپ میں سے ڈرائیونگ لائسنس کس کس کے پاس ہے؟‘‘ بارہ میں سے آٹھ ہاتھ نیچے چلے گئے‘ صرف چار ہاتھ کھڑے رہ گئے‘ میں نے آخری سوال پوچھا ’’ آپ میں سے کس کس نے باقاعدہ ڈرائیونگ اسکول میں داخلہ لے کر گاڑی چلانا سیکھی‘‘ آخری چار ہاتھ بھی نیچے چلے گئے۔
ڈرائیونگ دنیا کا خطرناک اور حساس ترین معمول ہوتا ہے‘ آپ جب گاڑی لے کر سڑک پرآتے ہیں تو آپ سمیت سیکڑوں لوگوں کی زندگی خطرے کا شکار ہو جاتی ہے‘ آپ کی معمولی سی غفلت آپ کو ٹرک‘ ٹرالر اور بس کے نیچے دے سکتی ہے‘ آپ گاڑی سمیت نالے میں گر سکتے ہیں‘ آپ کی گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ سکتی ہے اور آپ راستے میں موجود مکانوں‘ دکانوں اور ریڑھیوں سے ٹکرا سکتے ہیں‘ آپ دفتر‘ گھر اور اسکول جاتے لوگوں کی جان بھی لے سکتے ہیں اور آپ فٹ پاتھ پر چلتے راہگیروں کی زندگی کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں چنانچہ دنیا کے مہذب ممالک ڈرائیونگ لائسنس کوقتل سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
آپ ڈرائیونگ اسکول سے ٹریننگ کے بغیر ڈرائیونگ لائسنس اپلائی نہیں کر سکتے‘ آپ ڈرائیونگ کے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو آپ کے پوائنٹس کٹ جاتے ہیں اور آپ کی غفلت جب خاص حد کو چھو جاتی ہے تو آپ کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے اور مہذب معاشروں میں ڈرائیونگ لائسنس کی منسوخی کا مطلب آپ کی حرکت پر پابندی ہوتا ہے‘ آپ پھر اس ملک میں گاڑی نہیں چلا سکتے مگر ہمارے ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے ستر طالب علموں میں سے صرف 12 ڈرائیونگ جانتے تھے‘ چار کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تھا اور ان چاروں نے بھی کسی ڈرائیونگ اسکول سے باقاعدہ ٹریننگ نہیں لی تھی گویا یہ 12 طالب علم خود کش حملہ آور تھے‘ یہ بارود بن کر روز اپنی اور دوسرے کی جان لینے کے لیے گھر سے نکلتے تھے۔
یہ ایک المیہ تھا‘ آپ اب دوسرا المیہ ملاحظہ کیجیے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ لوگوں نے دو سال میں ماس کمیونی کیشن کے کتنے مضامین پڑھے؟‘‘ ۔بتایا گیا ’’ 24‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ آپ میں سے وہ لوگ ہاتھ اٹھائیں جو 24 مضامین میں سے کسی ایک مضمون کے ایکسپرٹ ہیں‘‘۔ ستر میں سے تین لوگوں نے ہاتھ اٹھائے‘ میں نے ان تینوں سے ان مضامین کے نام پوچھے جن میں یہ خود کو ایکسپرٹ سمجھتے تھے‘ خاتون نے جواب دیا ’’میں ٹیلی ویژن پروڈکشن کر سکتی ہوں‘‘۔
میں نے ان سے پوچھا ’’وائیٹ بیلنس کیا ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہیں۔ میں نے پوچھا ’’اسٹوری بورڈ کیا ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہیں اور میں نے پوچھا ’’ فلم کی پروڈکشن میں کتنے کیمرے استعمال ہوتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’آٹھ‘‘۔ دوسرے صاحب کالم نگار تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ مطالعے کو روزانہ کتنا وقت دیتے ہیں؟‘‘ جواب دیا ’’ مجھے مطالعے کے لیے وقت نہیں ملتا‘‘۔میں نے پوچھا ’’ اخبار کون سا پڑھتے ہیں؟‘‘۔ جواب ملا’’ اخبار نہیں پڑھتا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیا آپ ملک کے پانچ بڑے کالم نگاروں کے نام بتا سکتے ہیں؟‘‘ نوجوان نے فوراً پانچ نام بتا دیے‘ میں نے ان پانچ کالم نگاروں کے کالموں کا ٹائیٹل پوچھا‘ نوجوان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ آپ ان پانچ کالم نگاروں کے ایک ایک کالم کا حوالہ دیں‘‘ نوجوان خاموش رہا‘۔
تیسری خاتون نیوز کاسٹنگ کی ’’مہارت‘‘ رکھتی تھیں‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ امریکا کی کل ریاستیں کتنی ہیں؟‘‘ وہ خاموش رہیں‘ میں نے پوچھا ’’ پاکستان کے صدر کا نام کیا ہے؟‘‘ وہ خاموش رہیں‘ میں نے پوچھا ’’ سینیٹ کے کل ارکان کی تعداد کتنی ہے‘‘ وہ خاموش رہیں‘ میں نے پوچھا ’’ ملک کا پچھلا الیکشن کب ہوا‘‘ وہ خاموش رہیں اور میں نے پوچھا ’’پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر کون ہیں؟‘‘ جواب دیا ’’جنرل پرویز مشرف‘‘۔
میں نے تینوں ماہرین کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد پوری کلاس سے پوچھا ’’ آپ میں سے جاب کون کون کرنا چاہتا ہے‘‘ 70 میں سے 61 ہاتھ کھڑے ہو گئے‘ میں نے ان 9 طالب علموں سے نوکری نہ کرنے کی وجہ پوچھی جنہوں نے ہاتھ کھڑے نہیں کیے تھے‘ تین خواتین نے جواب دیا ’’ ہماری منگنی ہو چکی ہے‘ ایم اے کے بعد شادی ہو جائے گی‘‘۔ دو نوجوان ملک سے باہر جا رہے تھے‘ دو نوجوان سرکاری ملازم تھے‘ وہ کوالی فکیشن بڑھانے کے لیے ایم اے کر رہے تھے جب کہ دو نوجوان ایم اے کے بعد والد کا کاروبار سنبھالنا چاہتے تھے۔
میں اب 61 نوجوانوں کی طرف مڑا‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ کی تنخواہ کہاں سے اسٹارٹ ہونی چاہیے‘‘ مختلف نوجوانوں نے مختلف فگرز دیے لیکن 50 ہزار روپے پر اتفاق رائے ہو گیا‘ میں نے اب 61 نوجوانوں سے عرض کیا ’’ملک میں اب دو مسئلے ہیں‘ آپ کی کلاس کے 90 فیصد لوگ نوکری کرنا چاہتے ہیں جب کہ پاکستان میں ہر سال 23 فیصد نوکریاں کم ہو رہی ہیں‘ پاکستان تیسری دنیا کا غریب ملک ہے‘ ملک میں ستر ٹیلی ویژن چینلز ہیں‘ یہ تمام چینلز مالیاتی بحران کی وجہ سے ملازمین میں کمی کر رہے ہیں‘ یہ ’’تین پوسٹوں پر ایک شخص‘‘ کی پالیسی پر کاربند ہیں۔
اخبارات کی حالت بھی چینلز سے مختلف نہیں‘ اخبار میں سال سال تک کوئی آسامی پیدا نہیں ہوتی جب کہ ہماری یونیورسٹیاں سال میں ماس کمیونی کیشن کے دس ہزار طالب علم پیدا کر رہی ہیں اور ان میں سے نوے فیصد طالب علم نوکری کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی طرح شروع میں پچاس ہزار روپے تنخواہ لینا چاہتے ہیں‘ دوم‘ آپ کو کچھ نہیں آتا‘ آپ ایم اے کرنے کے باوجود 24 مضامین میں سے کسی مضمون کے ایکسپرٹ نہیں ہیں‘ آپ میں سے صرف 12 لوگوں کو ڈرائیونگ کی جاب مل سکتی ہے اور وہاں بھی اگر ڈرائیونگ لائسنس ضروری ہوا تو میرٹ پر صرف چار لوگ رہ جائیں گے اور کمپنی نے اگر ڈرائیونگ اسکول کا سر ٹیفکیٹ مانگ لیا تو یہ چار بھی ’’ڈس کوالی فائی‘‘ہو جائیں گے‘‘۔
میری گفتگو یقینا نامعقول اور نان پریکٹیکل تھی‘ شاید اسی لیے پوری کلاس اور کلاس کے اساتذہ ناراض ہو گئے‘ اساتذہ کا کہنا تھا‘ ہم نے آپ کو طالب علموں کو ’’ان کریج‘‘ کرنے کے لیے بلایا تھا لیکن آپ نے انھیں ’’ڈس کریج‘‘ کر دیا‘ میں نے اساتذہ سے پوچھا ’’کیا آپ کے بچے برسر روزگار ہیں‘‘ چائے کی میز پر دس استاد تھے‘ ان میں سے 7 استاد بزرگ تھے‘ ان کے بچے تعلیم مکمل کرچکے تھے‘ ان سات کے سات اساتذہ کے بچے بے روزگار تھے‘ میں نے بچوں کی ڈگریوں کی تفصیل پوچھی‘ دو بچے ڈاکٹر تھے‘ تین انجینئر تھے‘ دو ایم بی اے تھے اور ایک استاد کی بچی سافٹ ویئر انجینئر تھی۔
یہ بچے ٹیکنیکل شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ کے بچے ٹیکنیکل شعبوں میں گریجوایشن کرنے کے باوجود کیوں بے روزگار ہیں‘‘ اساتذہ نے جواب دیا ’’ملک میں میرٹ نہیں‘ ہمارے بچے سفارش اور رشوت نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’رشوت اور سفارش سرکاری ملازمت کے لیے درکار ہوتی ہے۔
آپ کے بچے پرائیویٹ سیکٹر میں جائیں‘‘ اساتذہ نے جواب دیا ’’بچے پرائیویٹ سیکٹر میں سیکڑوں مرتبہ اپلائی کرچکے ہیں مگر انھیں انٹرویو تک کی کال نہیں آئی‘‘ میں نے پوچھا ’’ بچوں کو کال کیوں نہیں آتی‘‘ اساتذہ کا کہنا تھا ’’ سفارش اور رشوت‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جی نہیں‘ جابز کم ہیں اور امیدوار زیادہ چنانچہ آپ کے بچے اعلیٰ تعلیم کے باوجود بے روزگار ہیں اور یہ ٹیکنیکل شعبوں کی حالت ہے جب کہ آپ مجھ سے ماس کمیونی کیشن کے طلباء اور طالبات کو ’’ان کریج‘‘ کروانا چاہتے ہیں‘‘ اساتذہ خاموش ہو گئے۔ یہ یقینا میرے ’’احترام‘‘ میں خاموش ہوئے ہوں گے کیونکہ ملک میں دوسروں کے نقطہ نظر کو برداشت کرنے یا تسلیم کرنے کی کوئی روایت موجود نہیں۔
پاکستان میں بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے‘ ملک میں ایک کروڑ 45 لاکھ پڑھے لکھے‘ ڈگری ہولڈر بے روزگار ہیں جب کہ بے روزگاروں کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے‘ یہ 5 کروڑ لوگ نوکریاں بھی چاہتے ہیں‘ بھاری تنخواہیں بھی اور مراعات بھی لیکن صلاحیت دیکھی جائے تو یہ ڈرائیونگ تک نہیں جانتے‘ یہ کمپیوٹر پر ٹائپ نہیں کر سکتے‘ یہ حساب نہیں کر سکتے اور یہ درخواست نہیں لکھ سکتے مگر یہ لوگ اس کے باوجود ایسی نوکریوں کی تلاش میں ہیں جن میں تنخواہیں لاکھوں میں ہوں‘ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے مواقع وسیع ہوں‘ اختیارات وزیراعظم کے برابر ہوں لیکن کام اور کارکردگی صفر ہو۔
میرا خیال ہے دنیا کی کوئی حکومت‘ دنیا کا کوئی نظام اس اپروچ اور بے روزگاری کے اس ہجوم کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ یہ ان پانچ کروڑ لوگوں کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا‘ ہم اب اس مسئلے کے حل کی طرف آتے ہیں۔ اس مسئلے کے چار حل ہیں‘ ایک‘ آپ لوگوں کی اپروچ کو نوکری سے ذاتی کام پر شفٹ کریں‘ حکومت ’’سیلف ایمپلائمنٹ‘‘ پر کام کرے اور یہ ڈیٹا کالج کے طلباء کے ساتھ شیئر کرے‘ دو‘ ملک میں گریجوایشن کے بعد ماسٹر یا ایم اے میں داخلے کے لیے دو سال کا عملی تجربہ لازمی قرار دے دیا جائے‘ طالب علم بی اے کرے‘ عملی زندگی میں جائے‘ وہاں دو سال گزارے اور اس کے بعد ماسٹر لیول کی تعلیم کے لیے اپلائی کر سکے۔
دو سال کے عملی تجربے کے دوران بھی جو طالب علم ذاتی کام شروع کرے‘ اسے 80 نمبر دیے جائیں اور نوکری کرنے والے کو 20 نمبر۔ تین‘ اعلیٰ تعلیم مہنگی بھی کر دی جائے اور مشکل بھی۔ یونیورسٹیاں کسی بھی شعبے میں سال میں سو سے زائد طالب علم نہ لے سکیں‘ سلیبس کو 80 فیصد پریکٹیکل اور 20 فیصد تھیوریٹکل بنا دیا جائے‘ اہل طالب علموں کی فیس معاف کر دی جائے‘ باقی طالب علموں کو بینکوں کے ذریعے ’’ ایجوکیشن لون‘‘ کی سہولت دے دی جائے‘ ملک کی تمام سرکاری آسامیاں ’’سی ایس ایس‘‘ جیسے امتحانات کے ذریعے پُر کی جائیں تا کہ کم از کم سرکاری نوکریوں میں سفارش اور رشوت ختم ہو جائے اور چار‘ ملک میں ’’ٹیلنٹ ایکسپورٹ‘‘ کا ادارہ بنایا جائے۔
یہ ادارہ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ’’ہیومن ریسورس ایکسپورٹ‘‘ کے معاہدے کرے‘ ان ممالک کی ضرورت کے مطابق یونیورسٹی کے بچوں کو ٹریننگ اور تعلیم دے اور اس کے بعد ان نوجوانوں کو ان ممالک میں بھجوا دے‘ یہ پڑھے لکھے پاکستانیوں اور پاکستان دونوں کے لیے بہتر ہو گا۔ہم نے اگر آج بے روزگاری کے مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا تو یہ نام نہاد پڑھے لکھے نوجوان مستقبل کے خودکش حملہ آور ثابت ہوں گے اور ہم اگر طالبان سے بچ بھی گئے تو بھی ہم خود کو ان نااہل بے روزگار خود کش حملہ آوروں سے نہیں بچا پائیں گے کیونکہ یہ ایک کروڑ 45 لاکھ لوگ ملکی سلامتی کے لیے اصل خطرہ ہیں۔
 
Top