بہت مُشکل ہے سمجھنا ، سمجھانا

طاھر جاوید

محفلین
پردے کی تہہ داری میں
کُچھ منظر جو
نہ چاہتے ہوئے بھی مگر درپیش رہیں کہ
بہت مُحال لگے نظرچُرا کے گُذر جانا مجھے
سوچتا ہوں۔۔۔۔
شب کی چھت کے زینوں سے دِن کے بازار میں اُترتے اُترتے
یہ منظر میں کِس کو دکھاوں
ہر منظر کے پس منظر میں
معصوم روحوں کے خوابوں کی وُقعت
دُنیا داری کی پگ میں لپٹی
حقارت کے سرابوں سے بھی کم ہے
ذِلت اِتنی پیہم ہے
کہ ڈرا ہوا سب کا فہم ہے
جو یقینِ ذات کے مُدعی ہیں
کیوں وقت اُن پہ اِتنا برہم ہے

میرے گردوپیش میں ہوتا سب کُچھ دیکھو کتنا مصنوعی ھے
کبھی ایمان فولادی بہت ،کبھی جیسےکہ دُھنی ھوئی روئی ہے
خود غرضی کی بے ماری ہے، بس اپنی غرض پہ یک جُوئی ہے
ماں کے قدموں تلے جنت کے تو سب متلاشی ہیں
کِسی اور کی عزت کی بولی لگاتے دیکھو کتنی یکسوئی ہے
میرے گردوپیش میں ہوتا سب کُچھ دیکھو کتنا مصنوعی ہے
کبھی خوش فہمی جنت کی ، کبھی ڈراوہ برزخ کا
کبھی بخشش آدھے سجدے کی ، کبھی بدلہ پوری دوزخ کا
کبھی ایمان فولادی بہت، کبھی جیسے دُھنی ہوئی روئی ہے
میرے گردوپیش میں ہوتا سب ،دیکھو کتنا مصنوعی ہے
 
Top