امجد اسلام امجد بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا۔ ۔ ۔امجد اسلام امجد

غزل

بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچّھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
سب سے چُھپ کر وہ کِسی کا دیکھنا اچھا لگا۔ ۔ ۔۔

سُر مئی آنکھوں کے نیچے پُھول سے کِھلنے لگے۔
کہتے کہتے کُچھ کسی کا سوچنا ، اچّھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بات تو کُچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دَم۔ ۔
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچّھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔

چائے میں چینی ملانا اُس گھڑی بھایا بہت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زیرِ لب وہ مسکراتا" شکریہ" اچھا لگا۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دِل میں کِتنے عہد باندھے تھے بُھلانے کے اُسے۔ ۔
وہ مِلا تو سب ارادے توڑنا اچّھا لگا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بے ارادہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کم توجّہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچّھا لگا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جَلو میں گُھو منا اچّھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اُس عُد وئے جاں کو امجد میں بُرا کیسے کہوں۔ ۔ ۔ ۔
جب بھی آیا سامنے وہ بے وفا، اچّھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top