بھوک ڈھل نہیں سکتی۔۔۔

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ شہر سے باہر جانے والی سڑک تھی۔ شہر سے نکلتے ہی اسی سڑک کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں کی بے شمار جھونپڑیاں تھیں۔ وہیں پر بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ کوئی کم سن بچہ کسی کار کے نیچے آکر کچلا گیا تھا۔ مغرب کے قریب کا وقت تھا۔ اور بچہ جھونپڑیوں سے نکل کر ایکا ایکی کار کے سامنے آگیا۔ نتیجہ کے طور پر جو ہوا سب کے سامنے تھا۔ کار والا بے بسی سے ہاتھ مل رہا تھا۔ وہ شکل و صورت سے کسی متمول گھرانے کا فرد لگتا تھا۔ بے انتہا کوشش کے باوجود وہ اس ننھے کی جان نہ بچا سکا تھا۔ سب لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ کار والے کا قصور نہیں۔ پر کسی کی جان لینے کا بوجھ اس کے دل پر سوار تھا۔ پولیس آگئی۔ اور فریقین کے درمیان کاروائی اور وہاں موجود لوگوں کے بیانات کے بعد کچھ معاملات طے پا گئے۔ کار والے نے بچے کے باپ کو دو لاکھ اپنی طرف سے ادا کیے کہ کچھ وہ اس کے غم کا مداوا کر سکے۔​
دن گزر گئے۔ لوگ اس حادثہ کو بھول گئے۔ وقت نے صبح و شام کے پیراہن میں اپنا سفر جاری رکھا ۔​
وہ اک بہت ہی سخت دن تھا۔ کم از کم اس جھونپڑی میں بسنے والوں کے لیے۔ دو دن سے فاقہ تھا۔ جھونپڑی کے اندر موجود چار بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ اک سال کے قریب عمر کا بچہ ماں کی گود میں تھا۔ پر بھوک کو اس کی معصومیت پر کوئی ترس نہیں آ یا تھا۔ اور نقاہت کے سبب اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔​
ماں کبھی اپنے بچوں کو دیکھتی اور کبھی سر جھکا کر رونا شروع کر دیتی۔ پر بچوں کو ان آنسووں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ان کا تقاضا تو روٹی تھا۔ جس کا وجود اس جھونپڑی سے عنقا تھا۔ آخر ماں کے جی میں کوئی بات سما گئی۔ اس نے بچوں سے کہا کہ اب سب خاموش ہو جاؤ۔ میں تمہارے کھانے پینے کے لیے روٹی کا کوئی بندوبست کرتی ہو۔ ماں کے تسلی کے چند الفاظ بھی بچوں کی بھوک کو کم نہ کر سکے۔ مگر اک امید سے ان کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ ماں نے چھوٹا بچہ اٹھایا اور باہر نکل گئی۔ اور باقی سب جھونپڑی کے دروازے پر لٹکے پردے پر آنکھیں ٹکا کر بیٹھ گئے۔​
سڑک کنارے ہجوم جمع تھا۔ موڑ کے ساتھ ہی اک حادثہ ہو گیا تھا۔ لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں۔ چھوٹا سا قریب ایک سال کی عمر کا بچہ پتا نہیں کہاں سے بیچ سڑک آگیا اور اک ٹرک کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا۔​
رات کو جھونپڑی سے بچوں کے رونے کی کوئی آواز نہیں تھی۔ ہاں اک ماں کی سسکاریاں کبھی کبھی بلند ہو کر سناٹا چیر رہی تھیں۔​
 

سید زبیر

محفلین
ہائے ! میری قوم کے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔ دیگر اقوام کا ہمارے ساتھ ایسا ہی کچھ رویہ ہوتا ہے
 

زبیر مرزا

محفلین
ہم آسائشوں میں رہتے ہیں کھاتے موج اُڑاتے ہیں اور ہمارے ہی اردگرد
لوگ بھوک سے بے حال اور فاقوں سے نڈھال مرجاتے ہیں- کراچی میں کچھ ہوٹل
مفت کھانا دیتے ہیں نادار افراد کو جسے صاحبِ استطاعت افراد ہوٹل میں رقم دے کر
ان کے لیے مہیا کرتے ہیں - جب بھی ایسے کسی ہوٹل کے سامنے سے گذرنا ہوا لاتعداد افراد
ہوٹل کے باہر جمع نظرآئے- یہ ایک لمحہ فکریہ ہمارے لیے -
نیرنگ خیال اللہ تعالٰی آپ کوخیرکثیرعطا فرمائے اور آپ کو اس درد مندانہ تحریر جو ایک نیکی ہے
کا اجرعطا فرمائے
 

مہ جبین

محفلین
اففففف نیرنگ خیال جھنجھوڑ دینے والی تحریر
کیسی تلخ حقیقت ہے یہ کہ انسان بچوں کی بھوک کو مٹانے کے لئے کیا کچھ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔۔۔اوہ میرے خدا
یہ بھائی کبھی تو ہنسا دیتا ہے اور کبھی ایسا رلادیتا ہے کہ جیسے کوئی دل کو مٹھی میں لیکر بھینچ دے
درد میں ڈوبی بہترین تحریر
 

نیلم

محفلین
بہت عمدہ تحریر
یہ پیٹ ہی سارے کام کرواتا ہے پھر بھی بھوک ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہائے ! میری قوم کے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔ دیگر اقوام کا ہمارے ساتھ ایسا ہی کچھ رویہ ہوتا ہے
صد متفق

او مائی گاڈ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔خیال بھائی :(
ایسے نا لکھا کریں ۔۔دل کو کچھ ہوتا ہے :(
معذرت گڑیا۔۔۔ :)

المیہ
تلخ حقیقت
جان لیوا سچ
اور شاید ایک ایوارڈ وننگ تحریر
پر
پھر بھی
بھوک ڈھل نہیں سکتی
جی باباجی بالکل
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں‌ڈھل سکتی

ہم آسائشوں میں رہتے ہیں کھاتے موج اُڑاتے ہیں اور ہمارے ہی اردگرد
لوگ بھوک سے بے حال اور فاقوں سے نڈھال مرجاتے ہیں- کراچی میں کچھ ہوٹل
مفت کھانا دیتے ہیں نادار افراد کو جسے صاحبِ استطاعت افراد ہوٹل میں رقم دے کر
ان کے لیے مہیا کرتے ہیں - جب بھی ایسے کسی ہوٹل کے سامنے سے گذرنا ہوا لاتعداد افراد
ہوٹل کے باہر جمع نظرآئے- یہ ایک لمحہ فکریہ ہمارے لیے -
نیرنگ خیال اللہ تعالٰی آپ کوخیرکثیرعطا فرمائے اور آپ کو اس درد مندانہ تحریر جو ایک نیکی ہے
کا اجرعطا فرمائے
یہ مناظر تو روزمرہ کا حصہ بن گئے ہیں۔۔ لائن میں لگے لوگوں کو دیکھ کر میں نے ایسے تبصرے بھی سن رکھے ہیں
"لو جی! لگ گیا بھکیا دا میلہ" (بھوکوں کا میلہ لگ گیا)
یا پھر
"اب دو روٹیوں کے لیے یہ گھنٹوں لائن میں لگے رہیں گے"
اپنی خوشی سے کون لائن میں لگتا ہے۔ اس کرب اور درد کو وہ کیونکر محسوس کر سکتا ہے جس نے زندگی میں صرف ڈاکٹر کے منع کرنے پر ہی فاقہ کیا ہو۔۔۔

مانو گڑیااا !! نہ لکھا کروں کیا ایسا؟

اففففف نیرنگ خیال جھنجھوڑ دینے والی تحریر
کیسی تلخ حقیقت ہے یہ کہ انسان بچوں کی بھوک کو مٹانے کے لئے کیا کچھ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔۔۔ اوہ میرے خدا
یہ بھائی کبھی تو ہنسا دیتا ہے اور کبھی ایسا رلادیتا ہے کہ جیسے کوئی دل کو مٹھی میں لیکر بھینچ دے
درد میں ڈوبی بہترین تحریر
اپیا ساحر کی شاعری دیکھیں آپ۔۔۔۔ :(

اور نیچے مرے مجبور وطن کی گلیاں
جن میں آوارہ پھرا کرتے ہیں بھوکوں کے ہجوم
زرد چہروں پہ نقاہت کی نمود
خون میں سینکڑوں سالوں کی غلامی کا جمود
علم کے نور سے عاری۔۔۔۔۔محروم
فلکِ ہند کے افسردہ ۔۔۔۔نجوم

نین بھیا ابھی بھی وہی فیلنگ ہے جو پہلی بار پڑھ کر ہوئی تھی :(
جی بٹیا پر یہ آپ کی تحریروں سے بہت کم تلخ ہے۔۔۔۔

بہت عمدہ تحریر
یہ پیٹ ہی سارے کام کرواتا ہے پھر بھی بھوک ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی ۔
ہر ایک گام پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا
ہر ایک گھر میں ہے افلاس اور بھوک کا شور
(ساحر لدھیانوی)
 
اس الم کو کتنے کرب سے لکھا ہے ذوالقرنین،
کہ یہ درد، دل اور روح دونوں تک اتر گیا۔
پورے اخبار اور اتنے لمبے مراسلے پڑھنے والے ہم اس خبر کی شہہ سرخی سے آگے پڑھ پانے کی ہمت ہی نہیں کر پاتے کہ فلاں جگہ افلاس کے ہاتھوں مجبور ماں نے 3 بچوں سمیت خود کشی کر لی۔
یا شوہر بیوی بچوں سمیت غربت کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا۔

میں کہ حالات کی سختی سے نہ ڈرنے اور گھبرانے والا شخص ایسی باتوں کو صرف محسوس کر کے بھی اپنی روح اور دل کو رونے سے نہیں روک پاتا۔ یہ دل بھی کیا شے ہے کمبخت کہ اپنے دکھ پہ کیا کمال حوصلہ دیتا ہے اور دوسروں کے دکھ محسوس کر کے رو دیتا ہے۔

بہت اچھی تحریر ہے اللہ اس میں مزید نکھار پیدا کرے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس الم کو کتنے کرب سے لکھا ہے ذوالقرنین،
کہ یہ درد، دل اور روح دونوں تک اتر گیا۔
پورے اخبار اور اتنے لمبے مراسلے پڑھنے والے ہم اس خبر کی شہہ سرخی سے آگے پڑھ پانے کی ہمت ہی نہیں کر پاتے کہ فلاں جگہ افلاس کے ہاتھوں مجبور ماں نے 3 بچوں سمیت خود کشی کر لی۔
یا شوہر بیوی بچوں سمیت غربت کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا۔

میں کہ حالات کی سختی سے نہ ڈرنے اور گھبرانے والا شخص ایسی باتوں کو صرف محسوس کر کے بھی اپنی روح اور دل کو رونے سے نہیں روک پاتا۔ یہ دل بھی کیا شے ہے کمبخت کہ اپنے دکھ پہ کیا کمال حوصلہ دیتا ہے اور دوسروں کے دکھ محسوس کر کے رو دیتا ہے۔

بہت اچھی تحریر ہے اللہ اس میں مزید نکھار پیدا کرے۔
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب بھی دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں ‌مفلسوں کو بے کسوں بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو، تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو

تو دل تابِ نشاطِ بزمِ عشرت لا نہیں‌سکتا
میں‌چاہوں بھی خواب آور ترانے گا نہیں سکتا
 
Top