اختر شیرانی بھلا کیوں کر نہ ھوں راتوں کو نیندیں بے قرار اس کی (اختر شیرانی)

بھلا کیوں نہ ھوں راتوں میں نیندیں بے قرار اس کی
کبھی لہرا چکی ھو جس پہ زلف مشکبار اس کی

امید وصل پر دل کو فریب صبر کیا دیجیئے
ادا وحشی صفت اس کی نظر بیگانہ وار اس کی

برا ھو اس تغافل کا کہ تنگ آکر یہ کہتا ھوں
مجھے کیوں ھو گئ الفت مرے پروردگار اس کی

یہاں کیا دیکھتے ھو ناصحو، گھر میں دھرا کیا ھے
مرے دل کے کسی پردے میں ڈھونڈو یادگار اس کی

جفائے ناز کی میں نے شکایت ،ھائے کیوں کی تھی
مجھے جینے نہیں دیتی نگاہ شرمسار اس کی

ھمیں عرض تمنا کی جسارت ھو تو کیونکر ھو
نگاہیں فتنہ ریز اس کی ادائیں حشر بار اس کی

اختر شیرانی
 

کاشفی

محفلین
بھلا کیوں کر نہ ہو ں راتوں کو نیندیں بیقرار اُس کی - اختر شیرانی

غزل
(اختر شیرانی)

بھلا کیوں کر نہ ہو ں راتوں کو نیندیں بیقرار اُس کی
کبھی لہرا چکی ہو جس پہ زلفِ مشکبار اس کی

اُمید وصل پر ، دل کو فریب صبر کیا دیجے؟
ادا وحشی صفت اس کی ،نظر بیگانہ وار ، اس کی!

جفائے ناز کی میں نے شکایت ہائے کیوں کی تھی
مجھے جینے نہیں دیتی نگاہِ شرمسار اس کی!

محبت تھی، مگر یہ بیقراری تو نہ تھی پہلے!
الہٰی! آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اُس کی

کوئی کیوں کر بھلادے، ہائے ایسے کی محبت کو
وفائیں، دلنواز اُس کی ! جفائیں خوشگوار اُس کی

ہمیں عرضِ تمنا کی جسارت ہو تو کیوں کر ہو؟
ادائیں فتنہ ریز اس کی! نگاہیں، حشر بار اُس کی

برا ہو، اس تغافل کا کہ تنگ آکر یہ کہتا ہوں
مجھے کیوں ہو گئی الفت ، مرے پروردگار اس کی؟

مئے الفت کے مستانوں کو میخانے سے کیا مطلب؟
ادا ، روحِ نشاط اُس کی! نطر، جانِ بہار اُس کی!

یہاں کیا دیکھتے ہو ، ناصحو! گھر میں دھرا کیا ہے
مرے دل کے کسی پردے میں ڈہونڈھو یادگار اس کی

تغافل کا گلہ، کس کو نہیں، کس کس کو سمجھاؤں
نگاہیں منتظر اُس کی! اُمیدیں، بیقرار اُس کی!

مجھے تو عشق پیچاں! ایسے بل کھانے نہ آتے تھے
بتا کیا تجھ پہ لہرائی ہے زلفِ مشکبار اُس کی؟

انہیں کوچوں میں کل اختر کو رسوا ہوتے دیکھا تھا
وہ آنکھیں اشکبار اُس کی، وہ باتیں دلنگار اُس کی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل
بھلا کیوں کر نہ ہو راتوں کو نیندیں بے قرار اُس کی
کبھی لہرا چکی ہو جس پہ زُلفِ مشکبار اُس کی

اُمیدِ وصل پر، دل کو فریبِ صبر کیا دیجے
ادا وحشی صفت اُس کی، نظر بے گانہ وار اُس کی

محبت تھی، مگر یہ بے قراری تو نہ تھی پہلے
الٰہی آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اُس کی؟

تجھے تو عشق پیچاں جیسے بل کھانے نہ آتے تھے؟
بتا کیا تجھ پہ لہرائی ہے زُلفِ عطر بار اُس کی؟

مئے اُلفت کے سرشاروں کو میخانے سے کیا مطلب؟
ادا، رُوحِ نشاط اُس کی، نظر جانِ بہار اُس کی

بُرا ہو اِس تغافل کا کہ تنگ آ کر یہ کہتا ہُوں
مجھے کیوں ہو گئی اُلفت مرے پروردگار اُس کی؟

یہاں کیا دیکھتے ہو ناصحو، گھر میں دھرا کیا ہے؟
مرے دل کے کسی پردے میں ڈھونڈو یادگار اُس کی!

جفائے ناز کی میں نے شکایت، ہائے کیوں کی تھی
مجھے جینے نہیں دیتی نگاہِ شرمسار اُس کی

ہمیں عرضِ تمنّا کی جسارت ہو تو کیوں کر ہو
نگاہیں فتنہ ریز اُس کی، ادائیں حشر بار اُس کی

کوئی کیوں کر بُھلا دے، ہائے ایسے کی محبت کو
وفائیں دل نواز اُس کی جفائیں خوشگوار اُس کی

اِنہی کُوچوں میں کل اخترؔ کو رُسوا ہوتے دیکھا تھا
وہ آنکھیں اشک بار اُس کی، وہ باتیں دِل فگار اُس کی

(اخترؔ شیرانی)
 
Top