حبیب جالب بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئ پیارے۔۔ حبیب جالب

علی فاروقی

محفلین
بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئ پیارے
نئے چراغ جلا رات ہو گئ پیارے
تِری نگاہِ پشیماں کو کیسے دیکھو ں گا
کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئ پیارے
نہ تیری یاد ،نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
عجیب صورتِ حالات ہو گئ پیارے
اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
یہ کیسی شامِ خرابات ہو گئ پیارے
کبھی کبھی تیری یادوں کی سانولی رت میں
بہے جو اشک تو برسات ہو گئ پیارے
وفا کانام نہ لے گا کوئ زمانے میں
ہم اہلِ دل کو اگر مات ہو گئ پیارے
تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالب
الگ تھلگ سے ہو ،کیا بات ہو گئ پیارے
 
Top