قمر جلالوی بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی - استاد قمر جلالوی

بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی
مگر یہ عدو کی زبانی سنا ہے بڑی مشکلوں سے تمہیں نیند آئی

شبِ وعدہ اول تو آتے نہیں تھے جو آئے بھی تو رات ایسی گنوائی
کبھی رات کو تم نے گیسو سنوارے کبھی رات کو تم نے مہندی لگائی

گلہ بے وفائی کا کس سے کریں ہم ہمارا گلہ کوئی سنتا نہیں ہے
خدا تم کو رکھے جوانی کے دن ہیں تمھارا زمانہ تمھاری خدائی

ہر اک نے دیے میرے اشکوں پہ طعنے ترے ظلم لیکن کسی نے نہ پوچھے
مری بات پر بول اٹھا زمانہ تری بات دنیا زباں پر نہ لائی

سرِ شام آنے کا وعدہ کیا تھا مگر رات اب تو ڈھلی جا رہی ہے
نہ جانے کہاں راہ میں رک گئے وہ نہ جانے کہاں دیر اتنی لگائی

یہی ہوتی ہے شرکتِ بزمِ ماتم تماشہ سمجھ کر کھڑے ہو گئے تم
نہ حالات مرنے کے پوچھے کسی سے نہ آنسو بہائے نہ میت اٹھائی​
استاد قمؔر جلالوی
 
آخری تدوین:
Top