بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ، ہمسفر جانا

ظفری

لائبریرین

بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہمسفر جانا
تھا اس راہ میں آخر ہمیں خود بھی بکھر جانا

ہوا کے دوش پر بادل کے ٹکڑے کی طرح ہم ہیں
کسی جھونکے سے پوچھیں گے کہ ہے ہم کو کدھر جانا

میری جلتے ہو ئے گھر کی نشانی بس یہی ہوگی
جہاں اس شہر میں روشنی دیکھو ٹہر جانا

پسِ ظلمت کوئی سورج ہمارا منتظر ہوگا
اسی ایک وہم کو ہم نے چراغِ رہ گذر جانا

دیارِ خموشی سے کوئی رہ رہ کر بُلاتا ہے
ہمیں مخمور ایک دن ہے اسی آواز پر جانا

 
Top