بڑا چوہا ، چھوٹا خرگوش (بچوں کے لیے کہانی)

(بچوں کے لیے مزید کہانیاں یہاں ملاحظہ فرمائیں)
بڑا چوہا ، چھوٹا خرگوش
’’چھوٹے میاں!میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ ہم اپنی طاقت کو بڑھالیں۔‘‘ بڑے چوہے نے چھوٹے خرگوش سے کہا۔ دونوں میں بہت گہری دوستی تھی۔
’’بھائی جان! میں سمجھا نہیں، تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟‘‘ چھوٹا خرگوش کان ہلاتے ہوئے بولا۔
’’چھوٹے میاں! کل رات جب بندر تمھارے ہاتھ سے گاجر چھین کر بھاگ گیا تو مجھے بہت افسوس ہوا، میں رات بھر اپنے بل میں یہی سوچتا رہا کہ میں بھی بہادر ہوں، تم بھی بزدل نہیں ہو، پھر ہم میں ایسی کیا کمی ہے کہ بندر تم سے گاجر چھین کر بھاگ کھڑا ہوا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔‘‘ بڑا چوہا تفصیل سے بولتا چلاگیا۔
’’تو پھر؟‘‘ چھوٹے خرگوش نے آنکھیں مٹکائیں۔
’’پھر یہ کہ چھوٹے میاں! ہمیں اپنی طاقت بڑھانے کے لیے کسی طاقت ور جانور سے دوستی کرلینی چاہیے، پھر کوئی بھی جانور ہم سے کچھ چھیننے سے پہلے سوبار سوچے گا۔‘‘ بڑے چوہے نے اپنی دانست میں بڑی ہی دانش مندانہ بات کی۔
’’ہاہاہاہا…ہاہاہاہا۔‘‘ چھوٹا خرگوش اپنے دوست بڑے چوہے کی بات سن کر ایسے زور زور سے ہنسنے لگا جیسے اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔
’’چھوٹے! تم میری اتنی سنجیدہ بات کا مذاق اڑا رہے ہو، جاؤ میں تم سے نہیں بولتا۔‘‘ بڑا چوہا ناراض ہوکر دوسری طرف منہ کرکے ہاتھ میں پکڑی پنیر والی روٹی کو کترنے لگا۔
’’ارے، ارے، میرے ’’کان‘‘ سے زیادہ عزیز بڑے بھائی! تم تو ناراض ہوگئے۔‘‘
مگر بڑے چوہے نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اچانک اس نے محسوس کیا کہ چھوٹا خرگوش کہیں چلا گیا ہے، وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا، پھر اسے کافی دیر بعد دور سے خرگوش آتا نظر آیا تو یہ دوبارہ منہ پھیرکر بیٹھ گیا۔
اچانک اس کے کان کے قریب چھوٹے خرگوش کی آواز آئی: ’’یہ دیکھو، میں تمھارے لیے کتنا بڑا اور بالکل تمھاری طرح خوب صوت گفٹ لایا ہوں۔‘‘
چوہے نے جیسے ہی سر اٹھا کر دیکھا تو اتنی بڑی بھینس کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور شرارتی خرگوش کی بات پر خوب ہنسا۔
’’آج سے یہ ہمارا دوست ہے، مگر اس کی ایک شرط ہے۔‘‘خرگوش نے کہا۔
اس سے پہلے کہ بڑا چوہا چھوٹے خرگوش سے بھینس کی دوستی کی شرط پوچھتا، چوہے نے دیکھا کہ ایک مچھر اڑتا ہوا آیا اور بھینس کے چہرے پر بیٹھ گیا، پھر اس کے بعد ایک ایسی بات ہوئی کہ چوہا حیران رہ گیا، اس نے دیکھا کہ بھینس خوف کے مارے اچھل رہی ہے، پھر ادھر ادھر بھاگنے دوڑنے لگی، پھر بھاگتے بھاگتے وہ ایک نہر میں چھلانگ لگا غوطے لگانے لگی۔
’’یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔‘‘ بھینس کو ایک چھوٹے سے مچھر سے اس قدر گھبراتے دیکھ کر بڑے چوہے نے چھوٹے خرگوش سے پوچھا تو وہ بولا:
’’میرے حسین دوست!بہادری کا تعلق جسم اور طاقت سے نہیں، بلکہ دل سے ہوتا ہے، اسی لیے ڈرپوک کو بزدل کہتے ہیں، یعنی بکری جیسے دل والا۔ اب اس بھینس کو ہی دیکھ لو، کتنی طاقت ور ہے، مگر حد درجے بزدل ہے، حتی کہ جب اسے مچھر کاٹ لے تو بھاگ کر پانی میں غوطے لگانے لگتی ہے، اسے تو ڈوب مرنا چاہیے۔‘‘
’’واقعی، اس بزدل سے تو میں کبھی بھی دوستی نہیں … ارے ہاں یاد آیا… اس نے اپنی دوستی کی شرط کیا رکھی تھی بھلا؟‘‘ بڑے چوہے کو بولتے بولتے ایک دم وہ شرط یاد آگئی تو اس نے پوچھا۔
’’بھینس نے یہ شرط رکھی تھی دوستی کی کہ تم اسے مارو گے نہیں۔‘‘ چھوٹے خرگوش نے شرط بتائی اور پھر دونوں خوب ہنسنے لگے۔

رائٹر: محمد اسامہ سَرسَرؔی
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top