بچپن کے دُکھ

فاروقی

معطل
بچپن کے دُکھ کتنے اچھے ہوتے تھے


تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے


وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں


تتلی کے پر نوچ کے اُچھلا کرتے تھے


چھوٹے تھے تو مکرو فریب بھی چھوٹے تھے


دانہ ڈال کر چڑیاں پکڑا کرتے تھے


پاؤں مار کر بارش کے پانی میں


اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھے


اپنے جل جانے کا بھی احساس نہیں تھا


جلتے ہوئے شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے


اب تو اک آنسو بھی رُسوا کر دیتا ہے


بچپن میں جی بھر کے رویا کرتے تھے

عائشہ
 

زینب

محفلین
بچپن کے دُکھ کتنے اچھے ہوتے تھے


تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے

بہت خوب ۔۔۔۔۔۔۔میری پسندیدہ کولیکشن میں سے ایک
 
Top