بچوں کے لیے علامہ اقبال کی نظمیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ایک مکڑا اور مکھی
(ماخوذ)
بچوں کے لیے



اک دن کسی مکھی سےیہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمہارا
لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھُولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا

اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا، پھر نہیں اترا

مکڑے نے کہا؛ واہ ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہوگا
منظور تمہاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا
اُڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھیرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا؟
اس گھرمیں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا
مکھی نے کہا خیر! یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں ، یہ امید نہ رکھنا!

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سوجائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا!

مکڑے نے کہا دل میں، سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کمبخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
یہ سوچ کے مکھی سے کہا اُس نے بڑی بی!
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبا!
ہوتی ہے اُسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
یہ حسن، یہ پوشاک، یہ خوبی ، یہ صفائی!
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد ہوں بُرا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا

بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا​
 
ایک پہاڑ اور گلہری
(ماخوذ از ایمرسن)
بچوں کے لیے


کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم، تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور! کیا کہنا
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!
کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا!
جو میں بڑی نہیں تری طرح تو کیا پروا!
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجکو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اُس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے ! خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برُا نہیں قدرت کے کارخانے میں​
 
ایک گائے اور بکری

(ماخوذ)

بچوں کے لیے

اک چراگاہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہرطرف صاف ندیاں تھیں‌ رواں
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں‌ آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
کسی ندی کے پاس اک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آنکلی
جب ٹھہر کراِدھر اُدھر دیکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پایا
پہلے جھک کر اسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں!
گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں
کٹ رہی ہے بُری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
جان پر آ بنی ہے ، کیا کہیے!
اپنی قسمت بری ہے، کیا کہیے!
دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں
رو رہی ہوں بُروں کی جان کو میں
زور چلتا نہیں‌ غریبوں کا
پیش آیا لکھا نصیبوں کا
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے خدا نہ کرے!
دودھ کم دوں تو بُڑ بُڑاتا ہے
ہوں جو دبلی، تو بیچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے!
کن فریبوں سے رام کرتا ہے!
اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں
بدلے نیکی کے یہ بُرائی ہے
میرے اللہ! تری دہائی ہے! !
سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی، ایسا گلہ نہیں اچھا
بات سچی ہے بے مزا لگتی
میں کہوں گی مگر خُدا لگتی
یہ چراگہ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں!
یہ کہاں، بے زباں غریب کہاں!
یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لطف سارے اسی کے دم سے ہیں
اس کے دم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی ، کہ آزادی ؟
سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گزان سے بچائے خدا
ہم پہ احسان ہے بڑااس کا
ہم کو زیبا نہیں گلہ اس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچتائی
دل میں پرکھا بھلا بُرا اُس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی!​
 
بچے کی دعا
(ماخوذ)
بچوں کے لیے


لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے!
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے!

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درمندوں سے صعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو



 
ہمدردی
(ماخوذ از ولیم کوپر)
بچوں کے لیے


ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اُڑنے چگے میں دن گزارا
پہنچوں‌کس طرح آشیاں تک
ہرچیز پہ چھا گیا اندھیرا
سُن کے بلبل کی آہ وزاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے​
 
ماں کا خواب
(ماخوذ)
بچوں کے لیے


میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دئیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دِیا اُس کے ہاتھوں‌میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آگئے تم کہاں؟
جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ، اچھی وفا تم نے کی
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب
رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا
دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا

سمجھتی ہے تُو ہوگیا کیا اسے؟
ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے!​
 
پرندے کی فریاد
بچوں کے لیے


آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانہ

آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں

کیا بدنصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں، مَیں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں


اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفس میں، مَیں غم سے مر نہ جاؤں

جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہوگیا ہے
دل غم کو کھارہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

آزاد مجکو کردے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تُو چھوڑ کر دعالے​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top