اقبال (بچوں کے لیے) ایک گائے اور بکری ( ماخُوذ )

طارق شاہ

محفلین


ایک گائے اور بکری

علامہ اقبال
(ماخُوذ )
بچوں کے لیے


اِک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں

کیا سماں اُس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندّیاں تھیں رواں

تھے اناروں کے بے شُماردرخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں

کِسی ندی کے پاس اِک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی

جب ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا
پاس اِک گائے کو کھڑے پایا

پہلے جھُک کر اُسے سلام کِیا
پھر سلِیقے سے یُوں کلام کِیا

کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھّے ہیں

کٹ رہی ہے بُری بھلی اپنی
ہے مُصیبت میں زندگی اپنی

جان پر آ بنی ہے ، کیا کہیے
اپنی قسمت بُری ہے ، کیا کہیے

دیکھتی ہوں خُدا کی شان کو میں
رو رہی ہُوں بُروں کی جان کو میں

زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لِکھّا نصِیبوں کا

آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اُس سے پالا پڑے ، خُدا نہ کرے

دُودھ کم دُوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دُبلی تو بیچ کھاتا ہے

ہتھکنڈوں سے غُلام کرتا ہے
کِن فریبوں سے رام کرتا ہے

اُس کے بچّوں کو پالتی ہوں میں
دُودھ سے جان ڈالتی ہوں میں

بدلے نیکی کے یہ بُرائی ہے
میرے اللہ! تِری دہائی ہے

سُن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی ، ایسا گِلہ نہیں اچّھا

بات سچّی ہے بے مزا لگتی
میں کہوں گی مگر خُدا لگتی

یہ چراگہ ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایا

ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں ، بے زباں غریب کہاں

یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لُطف سارے اُسی کے دم سے ہیں

اُس کے دم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی ، کہ آزادی

سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گزُران سے بچائے خُدا

ہم پہ احسان ہے بڑا اِس کا
ہم کو زیبا نہیں گلا اِس کا

قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گِلہ نہ کرو

گائے سُن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گِلے سے پچھتائی

دل میں پرکھا بَھلا بُرا اُس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی

علامہ اقبال
 
Top