بچوں کی باتیں

جاسمن

لائبریرین
یہ بچے بھی ناں! اب اِتنا کھلارا کیا ہؤا ہے۔ برتن باورچی خانے میں رکھو،ریپر کوڑے دان میں ڈالو۔ کوئی حال نہیں۔ چوہدری کہیں کے۔" امی کی بڑبُڑاہٹ جاری ۔
ایمی:"اب چوہدری ہیں تو چوہدریوں والے کام ہی کریں گے ناں!"
محمد:"آپ بتا دیا کریں مما جی۔ آپ کو کیا پتہ کتنی ٹینشنیں ہوتی ہیں ہمیں ۔یاد نہیں رہتا۔"
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
مما: بیٹا!" مجھے کمبل لا دو۔"
محمد:"مما !اب آپ بڑی ہو گئی ہیں۔۔ اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں سے کام کراتی ہیں۔یہ زیادتی ہے"
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
مما: "ایمی! تمہارے لئے پھول بنانے ہیں۔ مجھے سکیل لا دو۔"
ایمی: "مما! میں یہ سکول کا کام کر رہی ہوں۔"
مما: "ماں باپ کا کہنا فوراِِ ماننا چاہیے۔ یاد ہے وہ کہانی جس میں ماں نے بیٹے کو کہا کہ مجھے پانی لا دو اور خود سو گئی۔ بیٹا ساری رات سرہانے کھڑا رہا کہ شاید میری ماں جاگ جائے اور پانی مانگے۔۔۔"
محمد:" مما! وہ کیا ہے کہ آپ ایک عقلمند اور پڑھی لکھی ماں ہیں۔ آپ پانی پئے بغیر نہیں سوئیں گی۔"
 

جاسمن

لائبریرین
اماں: آؤ بچو نماز پڑھیں۔
چار سالہ بھتیجا نماز کے لئے جائے نماز بِچھا چکا تو اماں نے کہا۔
اماں: اللہ اپنے فرشتوں سے کہے گا،دیکھو! یہ میرا ننّھا سا بندہ نماز پڑھ رہا ہے۔
چار سالہ بھتیجا:اماں: اللہ نماز نہیں پڑھتے؟
 
اماں: آؤ بچو نماز پڑھیں۔
چار سالہ بھتیجا نماز کے لئے جائے نماز بِچھا چکا تو اماں نے کہا۔
اماں: اللہ اپنے فرشتوں سے کہے گا،دیکھو! یہ میرا ننّھا سا بندہ نماز پڑھ رہا ہے۔
چار سالہ بھتیجا:اماں: اللہ نماز نہیں پڑھتے؟
میرا چھوٹا بھائی جو تقریباً دس سال کا تھا نماز پڑھ کر آیا کہنے لگا باجی میں نماز پڑھ کر آیا ہوں میں نے کہا کہ تو کیا مجھ پر کوئی احسان کیا ہے؟
کہتا نہیں آپ پر تو نہیں اللہ پر تو احسان کیا ہے نا :sneaky:
 

arifkarim

معطل
ہماری نانی جان ایک بار میری چھوٹی بہن کو آنحضورﷺ کی ہجرت مدینہ کا واقع سنا رہی تھیں کہ کس طرح آپؐ ایک طویل مسافت کے بعد مدینہ پہنچے۔ جب واقعہ ختم ہوا تو وہ بولی: پر نانی جان! کیا راستے میں کوئی پٹرول پمپ نہیں تھا جہاں وہ قیام کر سکتے؟
 

نظام الدین

محفلین
دو بچے آپس میں لڑرہے تھے۔ ایک بچے نے طعنہ دیا:
’’تجھے شرم آنی چاہئے، تیرا باپ ٹیلر ہے اور تو پھٹی ہوئی شرٹ پہن کر پھررہا ہے۔‘‘
دوسرے بچے نے جواب دیا:
’’شرم تو تجھے بھی آنی چاہئے، تیرا باپ ڈینٹسٹ ہے اور تیرا چھوٹا بھائی بغیر دانتوں کے پیدا ہوا ہے۔‘‘
 

جاسمن

لائبریرین
ایمی نے کل بھی ایک سوال پوچھا جو وہ پہلے بھی پوچھ چکی ہے اور جس کا جواب ہم میں سے کسی کو نہیں آیا۔
ایمی:"میں کیوں دِکھتی ہوں؟"
اماں اور سب:" تم خود کو کیسے دِکھائی دیتی ہو؟ یہ پوچھنا چاہتی ہو،ہم تمہیں کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ ایک شخص کوایک وقت میں ایک ہی منظر دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ" ہم نے ہر ممکنہ سوال اور جواب اُس سے پوچھ لیا لیکن وہ کچھ ایسا پوچھنا چاہتی ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آ رہا۔
اُس کا سوال یہی ہے کہ" میں کیوں دِکھتی ہوں؟ کوئی اور کیوں نہیں دِکھتا؟"
 

جاسمن

لائبریرین
اماں کا عقیدہ تھا کہ بچوں کو جیب خرچ دو ضرور لیکن چونکہ گند مند کھاتے ہیں،اِس لئے کم جیب خرچ دو۔ بچوں کے ماموں کو ایک بار بچوں کے جیب خرچ کا پتہ چلا تو اُنہیں سخت صدمہ پہنچا۔ اُنہوں نے اماں سے کہہ کے جیب خرچ دس روپے مزید بڑھوا دیا۔
کچھ عرصہ بیتا تو بچے جیب خرچ میں اِضافے کے لئے کہنے لگے۔
ایمی: "پہلے تو ماموں جان نے اماں سے کہہ کے ہمارا جیب خرچ بڑھوا دیا تھا اب ہم خود اماں سے کہہ رہے ہیں۔"
محمد:" ہاں ناں اب ہم اپنے پیروں پہ کھڑے ہو چُکے ہیں۔"
 

جاسمن

لائبریرین
ایمی بہت چھوٹی تھی اور اماں بچوں کو گند بلا کھانے سے منع کرتی تھیں۔ بچہ ہر بات کو وہی سمجھتا ہے جو اُس کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اُسے بھلا طنز کا کیا پتہ۔
ایک بار ایمی اپنے بابا جانی کا ہاتھ پکڑ کے باہر لے جانے لگی۔
" آئیں بابا گند بلا لینے چلیں"
 

جاسمن

لائبریرین
اماں کو تھر کے باسیوں سے بہت ہمدردی ہے۔ کہنے لگیں۔
" پیارے بچو! اپنے اپنے جیب خرچ میں سے تھر والوں کے لئے اللہ والے گلہ میں کچھ پیسے ڈالو۔"
ایمی:اسی تے خالی ہاں۔ ساڈے کول تے پھوٹی کوڑی وی نہیں۔"
(اپنا جیب خرچ ہفتہ بھر کا پہلے ہی لے کے خرچ کر چکے ہیں۔)
 

جاسمن

لائبریرین
محمد:اماں!آج اردو کے ٹیسٹ میں الفاظ سے جملے بنانے کا سوال آیا تو دو الفاظ ایسے تھے جن سے تقریباَََ دس گیارہ بچوں کو جملے بنانے نہ آئے۔ دور افتادہ اور روز افزوں۔دس بچے یہ سوال چھوڑ آئے۔اور ایک بچے نے الفاظ سے بالکل درست جملے بنائے اور استانی کو پورے نمبر دینے پڑے۔
دور افتادہ: استانی نے بچوں سے پوچھا کہ کیا آپ دور افتادہ کا ایک جملہ بنا سکتے ہیں؟
روز افزوں: ٹیسٹ میں روز افزوں سے جملہ بنانے کو کہا گیا۔
 
عبداللہ صاحب نئے بنے پل کا روزانہ معائنہ کرنے جاتے ہیں۔ رات بھی ضد کر ڈالی۔ ویسے وہ پل کو wulکہتے۔ پاپا : "عبداللہ یار پل ہوتا ہے"
عبداللہ: "نہیں ول ہوتا ہے ":cool:
اچها ہیرو صاحب چلتے ہیں۔ موصوف اپنا چوہا اور سانپ (ربڑ کے بنے ہوئے ) بهی ساتھ لے گئے اور وہاں کہیں گرا آئے۔ گهر پہنچ کر علم ہوا تو انهی پیروں پر واپسی کے لیے حال دوال مچا دیا۔
جانا پڑا۔ موبائل کی ٹارچ آن کر کے سارا راستہ اور wul کی آخری سیڑهی تک چھان مارے۔ نا ملنا تهے نا ملے۔ گهر میں اور راستے میں ہم انهیں قائل کرتے رہے تهے کہ اس وقت نہیں جاتے بہت رات ہو گئی صبح دیکھ لیں گے لیکن موصوف اڑے رہے۔ جب آخری سیڑهی بهی دیکھ لی اور نا ملے تو فرمایا۔
پاپا وہ جنگل میں چلے گئے ہیں۔ آئیں واپس چلیں:confused:
 

زیک

مسافر
بہت سال پہلے کی بات ہے میری بیٹی نے نیا نیا چلنا سیکھا تھا۔ میں اسے ساتھ لے کر باہر پھر رہا تھا کہ راستے میں کچھ سیڑھیاں آئیں۔ سیڑھیوں پر وہ گر پڑی اور رونے لگی۔ میں نے اٹھایا اور مڑ کر گھر کی طرف جانے لگا۔ بیٹی نے خوب شور مچایا۔ پتہ چلا کہ وہ سیڑھیوں پر جانا چاہتی ہے۔ آخر اس نے سیڑھیاں سر کر کے ہی دم لیا۔

یہ واقعہ مجھے اس ویک اینڈ یاد آیا۔ میں اور بیٹی رننگ کر رہے تھے کہ وہ ٹھوکر کھا کر گر پڑی۔ گھٹنے بری طرح چھل گئے۔ میں نے اسے گھر کی چابی دی کہ گھر جا کر پٹی باندھ لے۔ مگر بیٹی نے کہا کہ اس کا تو آج 10 کلومیٹر دوڑنے کا ارادہ تھا۔ ابھی ایک کلومیٹر باقی تھا۔ سو وہ کچھ قدم چلی اور پھر سے دوڑنا شروع کر دیا۔ اس طرح ہم اس دن 10.33 کلومیٹر بھاگے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ایمی:اماں ایک عورت کہتی ہے کہ 2016 میں یورپ تباہ ہو جائے گا۔لوگ کہتے ہیں کہ اِس عورت کی پیشین گوئیاں پہلے بھی پوری ہوتی ہیں۔
اماں: اچھا!اللہ نہ کرے ۔ لیکن ہم اِن باتوں پہ یقین بھی نہیں کرتے۔غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔
ایمی:اللہ کرے اُس کی پیشین گوئی غلط ہو۔ میں نے تو برطانیہ جا کے پڑھنا ہے۔
 
محمد:اماں!آج اردو کے ٹیسٹ میں الفاظ سے جملے بنانے کا سوال آیا تو دو الفاظ ایسے تھے جن سے تقریباَََ دس گیارہ بچوں کو جملے بنانے نہ آئے۔ دور افتادہ اور روز افزوں۔دس بچے یہ سوال چھوڑ آئے۔اور ایک بچے نے الفاظ سے بالکل درست جملے بنائے اور استانی کو پورے نمبر دینے پڑے۔
دور افتادہ: استانی نے بچوں سے پوچھا کہ کیا آپ دور افتادہ کا ایک جملہ بنا سکتے ہیں؟
روز افزوں: ٹیسٹ میں روز افزوں سے جملہ بنانے کو کہا گیا۔

ایسے کلیے آج کل بھی بچوں کو بتائے جاتے ہیں :) ہمارے بچپنے کی کچھ یاد یں بھی تازہ ہوگئیں :)
 

جاسمن

لائبریرین
محمد آج کل اعتبار ساجد کی طنزو مزاح پہ مبنی مضامین کی کتاب "واہ بھئی وا" پڑھ رہا ہے۔ اماں نے بھی ایک دو مضامین پڑھے۔ اب دونوں میں اِس حوالے سے بات چیت ہوئی۔ تو محمد صاحب فرمانے لگے۔
"اماں! اِس کتاب میں مصنف نے ایک کردار تخلیق کیا ہے ۔جندوڈا(یہ لفظ اُس نے اکٹھا ادا کیا بہ وزن ڈوڈا) (اصل میں یہ نام ہے۔ جِند۔وڈّا)"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تیسری جماعت کے طالب علم بھتیجے صاحب اردو کا کام کر رہے تھے. اردو گنتی کے جملے بنائے جا رہے تھے. پھپھو کا پاس سے گزر ہوا تو جملے پڑھنے لگیں.
پھپھو: یہ 'تیس' کا کیا جملہ بنایا ہے آپ نے؟
بھتیجے صاحب: 'ایک آدمی کے پاس تیس بچے ہیں.'
پھپھو: پہلے تو آپ نے جملہ ٹھیک نہیں لکھا. آدمی کے پاس نہیں ، ایک آدمی کے تیس بچے ہیں. لیکن یہ کون آدمی ہیں جن کے 30 بچے ہیں؟ جملہ بناتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ سچ لکھا جائے. (اور پھر ایک لمبا خطبہ... )
بھتیجے صاحب: لیکن میں نے ٹھیک لکھا ہے. ہیں نا ایک آدمی. اس دن خبروں میں بتایا تھا.

واقعی ایک دو دن پہلے ایک خبر بار بار چل رہی تھی جس میں ایک صاحب کی تین بیگمات اور تیس بچوں کا ذکر تھا.
 
تیسری جماعت کے طالب علم بھتیجے صاحب اردو کا کام کر رہے تھے. اردو گنتی کے جملے بنائے جا رہے تھے. پھپھو کا پاس سے گزر ہوا تو جملے پڑھنے لگیں.
پھپھو: یہ 'تیس' کا کیا جملہ بنایا ہے آپ نے؟
بھتیجے صاحب: 'ایک آدمی کے پاس تیس بچے ہیں.'
پھپھو: پہلے تو آپ نے جملہ ٹھیک نہیں لکھا. آدمی کے پاس نہیں ، ایک آدمی کے تیس بچے ہیں. لیکن یہ کون آدمی ہیں جن کے 30 بچے ہیں؟ جملہ بناتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ سچ لکھا جائے. (اور پھر ایک لمبا خطبہ... )
بھتیجے صاحب: لیکن میں نے ٹھیک لکھا ہے. ہیں نا ایک آدمی. اس دن خبروں میں بتایا تھا.

واقعی ایک دو دن پہلے ایک خبر بار بار چل رہی تھی جس میں ایک صاحب کی تین بیگمات اور تیس بچوں کا ذکر تھا.
33 بچے, اس سال 2 اور متوقع اور چوتھی بیگم لانے کی تیاری میں تهے موصوف.
 
Top