بچوں کی باتیں

یاز

محفلین
محمد نے آرٹ کی نمائش میں فرعون کا بھیس اختیار کیا تھا اور اہرام وغیرہ بنایا تھا تو ایک بڑے افسر نے اسے انعام میں ساڑھے چار ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔
ابھی چند دن پہلے اسے پچھلے سکول بلا کے ایک تقریب میں یہ انعام دیا گیا۔محمد اس دن بہت خوش تھا۔پانچ سو اس دن سکول لے گیا۔اماں نے کہا کہ ایسے بچوں کا خیال رکھنا جو زیادہ پیسے نہیں لاسکتے۔
پھر بھی شکر ہے کچھ پیسے واپس لے آیا۔
دو دوست کسی اور شہر منتقل ہورہے تھے تو محمد نے ان کو الوداعی دعوت کئی اور دوستوں سمیت ایک ہوٹل میں دی۔تین ہزار وہاں خرچ کئے۔
یہ محمد کی اپنے دوستوں کے ساتھ بغیر والدین دوسری بار کی ہوٹلنگ تھی۔
پرندہ اڑانیں بھرنے لگا ہے ۔
بابا کے ساتھ اپریل میں گاڑی چلانا سیکھنے گیا دو مرتبہ۔
His First Flight
یاد آرہی ہے۔
ع:عقاب خوش ہے کہ بچوں کو آگیا اڑنا
ماشاءاللہ۔ بہت زبردست۔
 

زیک

مسافر
ہمارے ہاں ڈرائیونگ لائسنس کے تین سٹیج ہیں۔ پہلے پرمٹ جس پر آپ کسی لائسنس یافتہ کے ساتھ چلا کر سیکھتے ہیں۔ یہ 15 سال کی عمر میں مل جاتا ہے۔

پھر نوجوانوں کا لائسنس۔ یہ ٹیسٹ پاس کر کے 16 سال کی عمر میں ملتا ہے۔ اس میں کچھ چیزیں منع ہوتی ہیں جیسے رات دیر سے ڈرائیو کرنا اور گاڑی میں زیادہ بچوں کی موجودگی

18 سال کی عمر میں یہ لائسنس بغیر ممنوعات والا ہو جاتا ہے۔

بیٹی کا ابھی سال سے زیادہ وقت ہے پرمٹ کے لئے اپلائی کرنے کا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
محمد نے آرٹ کی نمائش میں فرعون کا بھیس اختیار کیا تھا اور اہرام وغیرہ بنایا تھا تو ایک بڑے افسر نے اسے انعام میں ساڑھے چار ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔
ابھی چند دن پہلے اسے پچھلے سکول بلا کے ایک تقریب میں یہ انعام دیا گیا۔محمد اس دن بہت خوش تھا۔پانچ سو اس دن سکول لے گیا۔اماں نے کہا کہ ایسے بچوں کا خیال رکھنا جو زیادہ پیسے نہیں لاسکتے۔
پھر بھی شکر ہے کچھ پیسے واپس لے آیا۔
دو دوست کسی اور شہر منتقل ہورہے تھے تو محمد نے ان کو الوداعی دعوت کئی اور دوستوں سمیت ایک ہوٹل میں دی۔تین ہزار وہاں خرچ کئے۔
یہ محمد کی اپنے دوستوں کے ساتھ بغیر والدین دوسری بار کی ہوٹلنگ تھی۔
پرندہ اڑانیں بھرنے لگا ہے ۔
بابا کے ساتھ اپریل میں گاڑی چلانا سیکھنے گیا دو مرتبہ۔
His First Flight
یاد آرہی ہے۔
ع:عقاب خوش ہے کہ بچوں کو آگیا اڑنا
ماشاءاللہ
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کل ایک سکول میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بچے صبح کی اسمبلی کے بعد واپس کمروں میں جا رہے تھے۔ پرنسپل صاحب مارچ پاسٹ کرتے بچوں کو مزید جوش دلانے کے لیے مائیک میں کچھ نہ کچھ کہہ رہے تھے۔ بچے جب ان کے سامنے سے گزرتے تو بڑے اچھے انداز سے۔ آگے پریفیکٹ کھڑے تھے جو یونیفارم وغیرہ بھی دیکھ رہے تھے۔ وہاں سے بھی بڑی تمیز سے گزرا جا رہا تھا۔ میں کافی دیر تک بچوں کو دیکھتی رہی۔ آخر میں چھوٹی کلاسز تھیں۔ شاید تیسری چوتھی کلاس کے بچے تھے۔ کچھ لہکتے لہکتے چلتے تھے اور جیسے ہی پریفیکٹ پر نظر پڑتی فورا ایک دوسرے کو اشارہ کرتے اور سیدھے ہو کر چلنا شروع کر دیتے۔ ایک ایسا ہی بچہ جب آخری پریفیکٹ کو کراس کر چکا تو ساتھ ہی نعرہ لگایا۔۔۔' یا ہو۔۔۔لائن توڑدو' اور بھاگ کر کلاس میں۔
 

La Alma

لائبریرین
کل ایک سکول میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بچے صبح کی اسمبلی کے بعد واپس کمروں میں جا رہے تھے۔ پرنسپل صاحب مارچ پاسٹ کرتے بچوں کو مزید جوش دلانے کے لیے مائیک میں کچھ نہ کچھ کہہ رہے تھے۔ بچے جب ان کے سامنے سے گزرتے تو بڑے اچھے انداز سے۔ آگے پریفیکٹ کھڑے تھے جو یونیفارم وغیرہ بھی دیکھ رہے تھے۔ وہاں سے بھی بڑی تمیز سے گزرا جا رہا تھا۔ میں کافی دیر تک بچوں کو دیکھتی رہی۔ آخر میں چھوٹی کلاسز تھیں۔ شاید تیسری چوتھی کلاس کے بچے تھے۔ کچھ لہکتے لہکتے چلتے تھے اور جیسے ہی پریفیکٹ پر نظر پڑتی فورا ایک دوسرے کو اشارہ کرتے اور سیدھے ہو کر چلنا شروع کر دیتے۔ ایک ایسا ہی بچہ جب آخری پریفیکٹ کو کراس کر چکا تو ساتھ ہی نعرہ لگایا۔۔۔' یا ہو۔۔۔لائن توڑدو' اور بھاگ کر کلاس میں۔
بچے کی فطرت جھوٹ نہیں بولتی۔ انسانی جبلت سے اگر خوف کے عنصر کو نکال دیا جائے تو یہ سماج رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔ کردار سازی ہو یا متوازن معاشرے کی تعمیر، یہی خوف کا عنصر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک چھوٹا بچہ سزا، ڈانٹ ڈپٹ یا ہم مکتبوں سے پیچھے رہ جانے کے خوف سے ہی پڑھائی پر توجہ دے گا یا پھر اچھی کارکردگی دکھائے گا۔ بہت کم ایسے ہونگے جنہیں اوائل عمری میں واقعتًا حصولِ علم کا شوق ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دائرہ کار بھی تبدیل ہوتے جاتے ہیں اور خوف کی نوعیت بھی۔
معاشرے کے نظم و نسق کی عمارت انہی خوف کے ستونوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ یہی برائیوں، خطاؤں اور قانون شکنیوں کے خلاف سیف گارڈ کا کام کرتا ہے۔ کہیں پکڑے جانے کا خوف، کہیں دنیا میں اپنی نیک نامی کی فکر اور کہیں عاقبت کی پرواہ ۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بچے کی فطرت جھوٹ نہیں بولتی۔ انسانی جبلت سے اگر خوف کے عنصر کو نکال دیا جائے تو یہ سماج رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔ کردار سازی ہو یا متوازن معاشرے کی تعمیر، یہی خوف کا عنصر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک چھوٹا بچہ سزا، ڈانٹ ڈپٹ یا ہم مکتبوں سے پیچھے رہ جانے کے خوف سے ہی پڑھائی پر توجہ دے گا یا پھر اچھی کارکردگی دکھائے گا۔ بہت کم ایسے ہونگے جنہیں اوائل عمری میں واقعتًا حصولِ علم کا شوق ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دائرہ کار بھی تبدیل ہوتے جاتے ہیں اور خوف کی نوعیت بھی۔
معاشرے کے نظم و نسق کی عمارت انہی خوف کے ستونوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ یہی برائیوں، خطاؤں اور قانون شکنیوں کے خلاف سیف گارڈ کا کام کرتا ہے۔ کہیں پکڑے جانے کا خوف، کہیں دنیا میں اپنی نیک نامی کی فکر اور کہیں عاقبت کی پرواہ ۔۔۔
مانیٹرنگ اور جزا سزا زندگی کا ایک جزو ہے اور ہمارے ایمان کا حصہ بھی۔ اس پر تو کوئی دوسری بات ہی نہیں۔ اور اس میں بھی خوف اور خوشنودی کا حصول دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں انسان کی تحریک کا باعث ہو سکتے ہیں۔

میں تو کل سے بچپن کے بے ساختہ پن کے اس اظہار سے لطف اندوز ہو رہی ہوں۔ ایسی خوب صورتی، بے ساختگی اور بےفکری عمر کے صرف اسی دور کا خاصہ ہوتی ہے۔
 

زیک

مسافر
آج گوگل ڈوڈل دیکھا
تو یاد آیا کہ بیٹی پیدا ہوئی تو اس کا ایپگار سکور پانچ تھا۔ پیدائش کے کچھ سکینڈوں میں اچانک کئی ڈاکٹر اور نرسیں کمرے میں موجود تھے۔ مجھے تو پتا ہی نہیں چلا کہ پہلے سے موجود ڈاکٹر نے کب اور کیسے ان کو بلایا۔

چند منٹ بعد سکور نارمل تھا۔
 
برخوردار کی عادت ہے کہ وہ افطاری کے سامان میں سے ہر چیز (تین، چار پیس) اپنے لیے ایک الگ ڈش میں ڈال لیتا ہے اور پھر اگلا گھنٹہ آہستہ آہستہ کر کے کھاتا رہتا ہے۔افطار کے کوئی آدھے پونے گھنٹے بعدنظر پڑی تو دیکھا عبداللہ کی ڈش میں ابھی بھی چار پانچ خوبانیاں موجود تھیں۔ میں نے کہا عبداللہ ایک خوبانی تو دیں۔ بولا آپ فریج سے نکال لیں یہ والی میں نہیں دوں گا۔ مجھے ناجانے کیا سوجھی۔۔۔ کہا، اچھا تو آپ اپنے پاپا کو نہیں دے رہے، دیکھ لینا ایک وقت آئے گا جب آپ کا بیٹا بھی آپ کو خوبانی نہیں دے گا۔ کوئی دس پندرہ سیکنڈ تو میری طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔۔۔ اچھا۔۔۔۔ تو آپ نے بھی دادا جی کو نہیں دی ہوں گی نا۔
:noxxx:
 

سین خے

محفلین
برخوردار کی عادت ہے کہ وہ افطاری کے سامان میں سے ہر چیز (تین، چار پیس) اپنے لیے ایک الگ ڈش میں ڈال لیتا ہے اور پھر اگلا گھنٹہ آہستہ آہستہ کر کے کھاتا رہتا ہے۔افطار کے کوئی آدھے پونے گھنٹے بعدنظر پڑی تو دیکھا عبداللہ کی ڈش میں ابھی بھی چار پانچ خوبانیاں موجود تھیں۔ میں نے کہا عبداللہ ایک خوبانی تو دیں۔ بولا آپ فریج سے نکال لیں یہ والی میں نہیں دوں گا۔ مجھے ناجانے کیا سوجھی۔۔۔ کہا، اچھا تو آپ اپنے پاپا کو نہیں دے رہے، دیکھ لینا ایک وقت آئے گا جب آپ کا بیٹا بھی آپ کو خوبانی نہیں دے گا۔ کوئی دس پندرہ سیکنڈ تو میری طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔۔۔ اچھا۔۔۔۔ تو آپ نے بھی دادا جی کو نہیں دی ہوں گی نا۔
:noxxx:

:D اور کوشش کریں بیوقوف بنانے کی :giggle:
 

محمد وارث

لائبریرین
برخوردار کی عادت ہے کہ وہ افطاری کے سامان میں سے ہر چیز (تین، چار پیس) اپنے لیے ایک الگ ڈش میں ڈال لیتا ہے اور پھر اگلا گھنٹہ آہستہ آہستہ کر کے کھاتا رہتا ہے۔افطار کے کوئی آدھے پونے گھنٹے بعدنظر پڑی تو دیکھا عبداللہ کی ڈش میں ابھی بھی چار پانچ خوبانیاں موجود تھیں۔ میں نے کہا عبداللہ ایک خوبانی تو دیں۔ بولا آپ فریج سے نکال لیں یہ والی میں نہیں دوں گا۔ مجھے ناجانے کیا سوجھی۔۔۔ کہا، اچھا تو آپ اپنے پاپا کو نہیں دے رہے، دیکھ لینا ایک وقت آئے گا جب آپ کا بیٹا بھی آپ کو خوبانی نہیں دے گا۔ کوئی دس پندرہ سیکنڈ تو میری طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔۔۔ اچھا۔۔۔۔ تو آپ نے بھی دادا جی کو نہیں دی ہوں گی نا۔
:noxxx:
مطلب یہ کہ آپ کی کم از کم تین نسلوں میں، "خوبانی چیز ہی ایسی ہے کہ نہ چھوڑی جائے" والا معاملہ ہے۔ :)
 
مطلب یہ کہ آپ کی کم از کم تین نسلوں میں، "خوبانی چیز ہی ایسی ہے کہ نہ چھوڑی جائے" والا معاملہ ہے۔ :)
خوبانی کے بارے میں تو یقین نہیں، البتہ 'نا چھوڑی جائے' والا سلسلہ آلو بخارے کے ساتھ ضرور تھا، ہے اور شاید رہے بھی۔
 

سید عمران

محفلین
ننھے بھتیجے کو بچوں والا ہزار کا نوٹ دے کے قائداعظم کی تصویر پہ انگلی رکھ کے پوچھا۔
"یہ کون ہیں؟"
بچے تو معصوم و ناسمجھ ہوتے ہیں ۔۔۔
لیکن سمجھ داروں کو ان کی ایسی باتیں نقل نہیں کرنی چاہئیں۔۔۔
اللہ کی شان میں ہر وقت باادب رہنا چاہیے۔۔۔
از خدا جوئیم توفیق ادب!!!
 
Top