بناوٹی ادویات بھی اکثر اوقات اصل دوا کی مانند کارگر

یہ وہ جادوئی گولیاں ہیں جن کا اصولی طور پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ جھوٹ موٹ کی ادویات ہوتی ہیں جن کا رنگ و شکل مختلف ہوتی ہے، لیکن ان میں کسی قسم کی تاثیر نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود یہ حیرت انگیز طور پر اکثر اوقات اپنا کام دکھا جاتی ہیں۔
گذشتہ دو عشروں میں اس بات پر بے پناہ تحقیق کی گئی ہے کہ یہ بناوٹی گولیاں (placebo) کیوں اور کیسے کام کرتی ہیں۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ ایسے امراض کے علاج میں بہت موثر ثابت ہوتی ہیں جن کی کیفیت خود مریض بیان کرتا ہے، مثلاً درد اور ڈیپریشن۔
لیکن حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ یہ ایک اہم اعصابی بیماری کے علاج میں بھی خاصی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
پال پیٹنسن اپنا زیادہ تر وقت گھر سے باہر مختلف مشاغل میں گزارنا پسند کرتے ہیں۔ انھیں مغربی کینیڈا کے شہر وینکوور کے مضافات میں سائیکل چلانا اور چیڑ کے جنگل میں اپنے کتے کو ٹہلانا بہت پسند ہیں۔
لیکن پال دوسرے لوگوں سے اس لحاظ سے قدرے مختلف ہیں کہ انھیں ایسا کرنے کے لیے ادویات کی ضرورت پڑتی ہے کیوں کہ انھیں پارکنس کا عارضہ لاحق ہے۔
ادویات کے بغیر ان کے لیے چلنا بھی بے حد مشکل کام ہوتا ہے۔
پارکنسن اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ دماغ میں ایک کیمیائی رطوبت ڈوپامین کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ڈوپامین جسمانی حرکات کی ترتیب اور نظم و ضبط میں اہم کردار کرتی ہے۔
پال کی ادویات انھیں کافی مقدار میں ڈوپامین مہیا کر دیتی ہیں، جس سے ان کے مرض کی علامات قابو میں رہتی ہیں۔
پال پیٹنسن کو بناوٹی دوا سے پارکنسن کے مرض میں میں افاقہ ملتا ہے
اس خطرناک اور پیچیدہ مرض کے پیشِ نظر یہ تصور کرنا محال ہے کہ ایک بناوٹی دوا اس کے شکار مریضوں کے علاج میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے جس کے اندر کوئی موثر اجزا نہیں ہوتے۔
اس ضمن میں پروفیسر جون سٹوئسل کے تجربات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ وہ وینکوور میں پیسیفک پارکسنز ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔
چند برس قبل پال نے پروفیسر سٹوئسل کی ایک تحقیق میں حصہ لیا جس میں ان سے کہا تھا کہ وہ اپنی ادویات لینا بند کر دیں۔
"انھوں نے مجھے ایک کیپسول دیا اور کہا کہ اسے کھانے کے بعد دوا کی تاثیر کے لیے آدھ گھنٹہ انتظار کروں ۔۔۔ اور واہ۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ تو بہت اچھا ہوا۔ میرا بدن تن گیا، میرے کندھے پیچھے کی طرف ہو گئے۔ یہ کام بغیر دوا کے نہیں ہو سکتا تھا۔"پال پیٹنسن
اگلے ہی دن ان کے مرض کی علامات عود کر آئیں اور انھیں ہسپتال جانا پڑ گیا۔
وہ کہتے ہیں: ’انھوں نے مجھے ایک کیپسول دیا اور کہا کہ اسے کھانے کے بعد دوا کی تاثیر کے لیے آدھ گھنٹہ انتظار کروں ۔۔۔ اور واہ۔
’میں سوچ رہا تھا کہ یہ تو بہت اچھا ہوا۔ میرا بدن تن گیا، میرے کندھے پیچھے کی طرف ہو گئے۔ یہ کام بغیر دوا کے نہیں ہو سکتا تھا۔‘
فرق صرف اتنا ہے کہ پال کو اصل دوا نہیں، بلکہ بناوٹی دوا دی گئی تھی۔
’مجھے سخت حیرت ہوئی۔ جب میں اپنی ادویات لیتا ہوں تو میرے بدن کے اندر طبعی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، تو پھر ایک خالی خولی کیپسول سے مجھے کیسے فرق پڑ سکتا ہے؟‘
پروفیسر سٹوئسل نے درجنوں مریضوں پر تجربات کیے ہیں، اور انھیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ بناوٹی دوا سے بھی پارکنسن کی علامات رفع ہو سکتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’دوسری کئی بیماریوں کی طرح پارکنسن میں بھی بناوٹی دوا کا اثر ہوتا ہے، جسے طبی پیمانوں سے ناپا جا سکتا ہے۔‘
ایسے تجربات پہلے بھی کیے گئے ہیں، لیکن پروفیسر سٹوئسل نے جو کام نیا کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایسے مریضوں کے دماغ کے سکین بھی کرتے ہیں، جس سے انھیں اس بات کا سراغ لگانے میں مدد ملی ہے کہ بناوٹی ادویات کیوں کہ اثرانگیز ثابت ہو سکتی ہے۔
انھیں نے پتہ چلایا ہے کہ پال جیسے مریضوں میں بناوٹی ادویات صرف نفسیاتی اثر نہیں کرتیں، بلکہ ان کی مدد سے دماغ میں باقاعدہ طور پر ڈوپامین کا اخراج ہوتا ہے۔
اور وہ بھی معمولی مقدار میں نہیں:
’ہمیں معلوم ہوا کہ اس سے اتنی مقدار میں ڈوپامین خارج ہوتی ہے جتنی اصل دوا سے سے۔ یہ بہت ڈرامائی اثر ہے۔‘
تاہم یہ ڈرامائی اثر بہت مختصر مدت کے لیے برقرار رہتا ہے، اس لیے یہ ادویات اصل ادویات کی جگہ نہیں لے سکتیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ بناوٹی ادویات دماغ کے اندر ڈوپامین کے اخراج کا باعث کیسے بنتی ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ یہ فالتو ڈوپامین دوا سے نہیں آ رہی بلکہ خود دماغ سے آتی ہے۔
اور یہی بناوٹی ادویات کی تاثیر کے پیچھے اصل کہانی ہے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ بناوٹی ادویات دماغ کی کیمیائی اجزا پیدا کرنے کی صلاحیت کو مہمیز کر سکتی ہیں۔
یونیورسٹی آف کولاریڈو کے پروفیسر ٹور ویجر اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ اگر درد کا شکار مریضوں کو جھوٹ موٹ کی دوا دی جائے تو ان کے دماغ میں کیا افعال رونما ہوتے ہیں۔
’جب ہم ایسے مریضوں کو بناوٹی ادویات دیتے ہیں تو ان کے اندر قدرتی اوپیوڈ خارج ہوتے ہیں جو دماغ کی اپنی مارفین ہے۔
’اس کا مطلب ہے کہ بناوٹی دوا درد کنٹرول کرنے کے اسی نظام پر اثر کرتی ہے جس پر مارفین جیسی ادویات کام کرتی ہیں۔‘
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بناوٹی ادویات سے جو توقع رکھی جاتی ہے، وہ ایسے ہی کام کر دکھاتی ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دماغ میں ڈوپامین کے اخراج کا باعث بن سکتی ہیں، تو یہ واقعی ڈوپامین خارج کرتی ہیں، اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ درد کش ہیں تو یہ واقعی درد رفع کر سکتی ہیں۔
ایک لحاظ سے ہمارے دماغ ہماری دوا خانے ہیں، جو ہمیں مسلسل کسی نہ قسم کے کیمیائی اجزا فراہم کرتے رہتے ہیں، درد کم کرنے کے لیے، توانائی دینے کے لیے، اعصاب کو پرسکون کرنے کے لیے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بناوٹی ادویات اسی دواخانے سے استفادہ کرتی ہیں۔
تاہم اس موضوع پر تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن اس کے باوجود گذشتہ عشرے کے دوران شواہد سامنے آئے ہیں کہ بناوٹی دوا کتنی موثر ہو سکتی ہے۔
اس بارے میں جس قدر زیادہ معلومات سامنے آئیں گی، اتنا ہی ہمارے اندرونی دواخانے سے بھرپور استفادہ کرنے میں مدد ملے گی۔
ماخذ
 
یہ تحقیق پڑھ کر مجھے وہ بات یاد آگئی جو بڑے اکثر کہا کرتے تھے کہ مریض کو آدھا افاقہ تو اسی وقت ہوجاتا ہے جب اسے ڈاکٹر پر اعتماد ہو۔
کچھ دن پہلے بھی مجھے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ اکثر امراض نفسیاتی وجہ سے ہوتے ہیں اور ان کا علاج بھی نفسیاتی طریقے سے ہوسکتا ہے۔
 
Top