جون ایلیا بنام فارہہ

ساری باتیں بھول جانا فارہہ
تھا وہ سب کچھ اک فسانہ فارہہ
ہاں محّبت ایک دھوکا ہی تو تھی
اب کبھی دُھوکا نہ کھانا فارہہ
چھیڑ دے گر کوئی میرا تذکرہ
سُن کے طنزاً مسکرانا فارہہ
میری جو نظمیں تمھارے نام ہیں
اب اُنہیں مت گنگنانا فارہہ
تھا فقط روحوں کے نالوں کی شکست
وہ ترنم وہ ترانہ فارہہ
بحث کرنا کیا بھلا حالات سے
ہارنا ہے، ہار جانا فارہہ
ساز و برگ عیش کو میری طرح
تم نظر سے مت گرانا فارہہ
ہے شعورِ غم کی اک قیمت مگر
تم یہ قیمت مت چُکانا فارہہ
زندگی ہے فطرتاً کچھ بد مزاج
زندگی کے ناز اُٹھانا فارہہ
پیش کش میں پھول کر لینا قبول
اب ستارے مت منگانا فارہہ
چند ویرانے تصّور میں رہیں
جب نئی دُنیا بسانا فارہہ
سوچتا ہوکس قدر تاریک ہے
اب مرا باقی زمانہ فارہہ
سُن رہا ہوں منزلِ غربت سے دور
بج رہا ہے شادیانہ فارہہ
ہو مبارک رسمِ تقریبِ شباب
بر مرادِ خسروانہ فارہہ
سج کے وہ کیسا لگا ہوگا جو تھا
ایک خوابِ شاعرانہ فارہہ
سوچتا ہوں کہ مجھ کو چاہیے
یہ خوشی دل سے منانا فارہہ
کیا ہوا اگر زندگی کی راہ میں
ہم نہیں شانہ بہ شانہ فارہہ
وقت شاید اپنا جبر ہے
اس پہ کیا تہمت لگانا فارہہ
زندگی اک نقشِ بے نقّاش ہے
اس پہ کیا انگلی اٹھانا فارہہ
صرف اک جلتی ہوئی ظلمت ہے نور
اب و تابش پر نہ جانا فارہہ
یہ جو سب کچھ ہے یہ شاید کچھ نہیں
روگ جی کو کیا لگانا فارہہ
سیل ہے بس، بیکراں لمحوں کا سیل
غرقِ سیلِ بیکرانہ فارہہ
 
Top