بلینک ورس۔۔۔۔۔۔۔دنیا !

سفید پوش۔۔۔لنڈا بازار میں نئے بسترتلاش کر رہے ہیں
کچھ مستی میں سر شار نوجوان
سستی کولا پکڑے، بد معاشوں کی ایکٹنگ کر رہے ہیں
بوڑھے لوگوں کے درمیان
پارس سے سونا بنانے پر بحث چل رہی ہے
جبکہ کچھ سر کاری باو
کاندھے پہ زندگی اوڑھے الٹا سیدھا چل رہے ہیں
گاہک پٹانے کوسڑک کنارے کھڑی لڑکی
نچلا ہونٹ دانتوں سے کاٹ رہی ہے
کچھ غصے میں بھرے لوگ
اپنوں کی کامیابی کا سوگ منا رہے ہیں
ایک بو ڑھی ، جوان بیٹے کی تصویر تھامے آنسو بہا رہی ہے
کچھ جوڑوں کی پھوٹی قسمت کا فیصلہ
پنجایت میں ہو رہا ہے
ملازم بیٹھے بوس کی برائیاں کر رہے ہیں
ایک بچہ نیفے میں معیوب تصویر یں چھپارہا ہے
چند من چلے پل پر سے تھوک پھینک کر تالیاں بجا رہے ہیں
میںبلا وجہ سب کو دیکھ رہا ہوں
اور خوامخواہ ہی سوچ رہا ہوں
٭٭٭


خرم​
 

نور وجدان

لائبریرین
سفید پوش۔۔۔لنڈا بازار میں نئے بسترتلاش کر رہے ہیں
کچھ مستی میں سر شار نوجوان
سستی کولا پکڑے، بد معاشوں کی ایکٹنگ کر رہے ہیں
بوڑھے لوگوں کے درمیان
پارس سے سونا بنانے پر بحث چل رہی ہے
جبکہ کچھ سر کاری باو
کاندھے پہ زندگی اوڑھے الٹا سیدھا چل رہے ہیں
گاہک پٹانے کوسڑک کنارے کھڑی لڑکی
نچلا ہونٹ دانتوں سے کاٹ رہی ہے
کچھ غصے میں بھرے لوگ
اپنوں کی کامیابی کا سوگ منا رہے ہیں
ایک بو ڑھی ، جوان بیٹے کی تصویر تھامے آنسو بہا رہی ہے
کچھ جوڑوں کی پھوٹی قسمت کا فیصلہ
پنجایت میں ہو رہا ہے
ملازم بیٹھے بوس کی برائیاں کر رہے ہیں
ایک بچہ نیفے میں معیوب تصویر یں چھپارہا ہے
چند من چلے پل پر سے تھوک پھینک کر تالیاں بجا رہے ہیں
میںبلا وجہ سب کو دیکھ رہا ہوں
اور خوامخواہ ہی سوچ رہا ہوں
٭٭٭


خرم​
اس سے اک لکھا افسانچہ یاد آگیا ہے ۔۔۔۔۔کیا وجہ ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ نہیں ہے اگر اس کو بھی پرو دیتے تو دنیا کے بجائے زندگی منظوم ہوجاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عمدہ !

(1)حجاب!!​

وہ کیا ہے ۔۔۔۔!​
ایک عورت برقعہ پوش جارہی تھی۔
دو نوجوان گاڑی میں بیٹھے بیٹھے رک گئے ۔
وہ عورت ایک '' خاص چوک '' پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔
دونوں نوجوان آپس میں بات کرنے لگے: ارے یہ تو وہی برقعہ چوک ہے ، اور دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر مارتے ہوئے ہنسنے لگے ۔
دونوں قریب آئے اور پوچھا کتنے پیسے چاہیں ۔
اس عورت نے کہا : پیسے نہیں چاہیں مگر ایک زور سے تھپڑ اٹھا کر ان کے منہ پر دے مارا۔​

نوجوان: گاڑی میں بیٹھے کر چلے گئے مگربس سٹاپ پر عورت بھی نہ تھی​
 
اس سے اک لکھا افسانچہ یاد آگیا ہے ۔۔۔۔۔کیا وجہ ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ نہیں ہے اگر اس کو بھی پرو دیتے تو دنیا کے بجائے زندگی منظوم ہوجاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عمدہ !

(1)حجاب!!​

وہ کیا ہے ۔۔۔۔!​
ایک عورت برقعہ پوش جارہی تھی۔
دو نوجوان گاڑی میں بیٹھے بیٹھے رک گئے ۔
وہ عورت ایک '' خاص چوک '' پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔
دونوں نوجوان آپس میں بات کرنے لگے: ارے یہ تو وہی برقعہ چوک ہے ، اور دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر مارتے ہوئے ہنسنے لگے ۔
دونوں قریب آئے اور پوچھا کتنے پیسے چاہیں ۔
اس عورت نے کہا : پیسے نہیں چاہیں مگر ایک زور سے تھپڑ اٹھا کر ان کے منہ پر دے مارا۔

نوجوان: گاڑی میں بیٹھے کر چلے گئے مگربس سٹاپ پر عورت بھی نہ تھی​

آپ کا افسانچہ بہت خوب ہے۔ ماشا اللہ۔
’’
کیا وجہ ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ نہیں ہے اگر اس کو بھی پرو دیتے تو دنیا کے بجائے زندگی منظوم ہوجاتی‘‘
اس کی سمجھ نہیں آئی۔ رہنمائی فرمائیے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ کا افسانچہ بہت خوب ہے۔ ماشا اللہ۔
’’
کیا وجہ ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ نہیں ہے اگر اس کو بھی پرو دیتے تو دنیا کے بجائے زندگی منظوم ہوجاتی‘‘
اس کی سمجھ نہیں آئی۔ رہنمائی فرمائیے۔

بھیا کہنے کا مقصد یہی تھا کہ جب ہم منفی و مثبت پہلو لے کے چلتے ہیں تو ہم زندگی کی ایک مکمل تصویر پیش کرتے ہیں جس کو ہم رئیلزم بھی کہتے ہیں ۔۔
 
خوب۔ لیکن یہ نثری نظم ہے، بلینک ورس اس کو نہیں کہتے میرے خیال میں۔
بلینک ورس شاید آزاد نظم سے ملتی ہے؟
بلینک ورس کو اردو میں معریٰ نظم کہتے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ انگریزی میں نثری نظم کو free verse یا فرانسیسی سے مستعار ہم معنیٰ ترکیب vers libre سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اب free verse اہلِ مغرب کے نزدیک دراصل وہ نظم ہے جو قافیے اور وزن دونوں سے آزاد ہو۔ جبکہ اس کا براہِ راست اردو ترجمہ یعنی آزاد نظم ہمارے ہاں کچھ اور ہی شے ہے۔ آزاد نظم سے مراد ہمارے ہاں وہ نظم لی جاتی ہے جو قافیے سے تو آزاد ہو مگر وزن کا التزام اس میں کیا گیا ہو۔ انگریزی میں ایسی نظم کو blank verse کہا جاتا ہے۔
ہماری اکثریت نے فری ورس یا وئیر لیبر[ہ] سے مراد آزاد نظم لے رکھی ہے (کیونکہ لغوی ترجمہ یہی بنتا ہے) اور جسے مغربی آزاد نظم سمجھتے ہیں اور بلینک ورس کہتے ہیں، اسے معریٰ کا نام دے رکھا ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ!​
عجیب خلطِ مبحث ہے۔ پھر جو عنوان خرم صاحب نے قائم کیا ہے اس میں تو یہ اندھیر انتہا کو پہنچ گیا ہے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں​
ایک اور اہم نکتہ اس ضمن میں یہ ہے کہ بلینک ورس میں وہ دونوں اصناف آ جاتی ہیں جنھیں ہم نے نظمِ آزاد اور نظمِ معریٰ کے عنوانات کے تحت تقسیم کر رکھا ہے۔ بلینک ورس کی عمومی تعریف یہ ہے کہ یہ وہ نظم ہے جس میں قافیے کی پابندی نہ ہو مگر وزن ہو۔ ہم اس میں مزید فرق کرتے ہیں اور اس نظم کو جس میں ہر سطر کا وزن برابر ہو، معریٰ کہتے ہیں جبکہ اس نظم کو جس میں ہر سطر کا وزن برابر نہ ہو، آزاد قرار دیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی عروض (prosody)، یا زیادہ وسیع اصطلاح میں یورپی عروض، شاعر کو عموماً یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ مصرعوں کی لمبائی اور بحر وغیرہ میں ضرورتِ شعری کے تحت مناسب تصرف کر سکتا ہے۔ بلکہ ہمارا تو یہاں تک خیال ہے کہ یورپ کے ادبِ عالیہ میں شاید ہی کوئی نظم ہو جس میں کسی بحر کو مکمل طور پر اور آخر تک اس کی اصل حالت میں نبھایا گیا ہو۔ اس کے برعکس ہمارے کلاسیکی عروض میں یہ سہولت شاعر کو کبھی حاصل نہیں رہی۔ پھر بیسویں صدی میں مصرعوں کی لمبائی طے کرنے کی حد تک شاعر کو آزاد کر دیا گیا۔ سو کلاسیکی عروض کے تحت لکھی جانے والی نظم تو معریٰ کہلائی جبکہ جدید رجحانات کی تابع نظم کو آزاد کا نام دیا گیا۔
بہرحال، فری ورس کے بالمقابل آزاد نظم کی ترکیب گھڑ کے ہم جس بری طرح پھنسے ہیں اس کا اندازہ جلد یا بدیر ہمیں ہو جائے گا۔ نام نہاد عالمی ادب سے فری ورس کی جو مثالیں پیش کی جاتی ہیں وہ اصلاً نثری نظم کی ہوتی ہیں اور ان کا موازنہ اصطلاح سے متعلق اسی غلط فہمی کے باعث ہماری آزاد نظم سے کیا جاتا ہے۔ پھر اردو اور اہلِ اردو کی ہیچ مائیگی، تنگ دامانی اور بدویت کو وہ کوسنے دیے جاتے ہیں کہ الامان!
اس قیامت کا مختصر احوال ذیل کے نقشے سے معلوم ہو گا:
free verse/vers libre = نثری نظم = وہ نظم جس میں وزن اور قافیے دونوں کی پابندی نہ ہو
blank verse = آزاد نظم/معریٰ نظم = وہ نظم جس میں قافیے کی پابندی نہ ہو
 
free verse/vers libre = نثری نظم = وہ نظم جس میں وزن اور قافیے دونوں کی پابندی نہ ہو
blank verse = آزاد نظم/معریٰ نظم = وہ نظم جس میں قافیے کی پابندی نہ ہو
یعنی حد ہے، اتنی سی رائی کا اوپر آپ نے پہاڑ بنایا ہے:)
یہ تو ہم نے دریا کو کوزے میں بند کیا تھا۔ :D
 
لطف کی بات یہ ہے کہ انگریزی میں نثری نظم کو free verse یا فرانسیسی سے مستعار ہم معنیٰ ترکیب vers libre سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اب free verse اہلِ مغرب کے نزدیک دراصل وہ نظم ہے جو قافیے اور وزن دونوں سے آزاد ہو۔ جبکہ اس کا براہِ راست اردو ترجمہ یعنی آزاد نظم ہمارے ہاں کچھ اور ہی شے ہے۔ آزاد نظم سے مراد ہمارے ہاں وہ نظم لی جاتی ہے جو قافیے سے تو آزاد ہو مگر وزن کا التزام اس میں کیا گیا ہو۔ انگریزی میں ایسی نظم کو blank verse کہا جاتا ہے۔
ہماری اکثریت نے فری ورس یا وئیر لیبر[ہ] سے مراد آزاد نظم لے رکھی ہے (کیونکہ لغوی ترجمہ یہی بنتا ہے) اور جسے مغربی آزاد نظم سمجھتے ہیں اور بلینک ورس کہتے ہیں، اسے معریٰ کا نام دے رکھا ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ!​
عجیب خلطِ مبحث ہے۔ پھر جو عنوان خرم صاحب نے قائم کیا ہے اس میں تو یہ اندھیر انتہا کو پہنچ گیا ہے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں​
ایک اور اہم نکتہ اس ضمن میں یہ ہے کہ بلینک ورس میں وہ دونوں اصناف آ جاتی ہیں جنھیں ہم نے نظمِ آزاد اور نظمِ معریٰ کے عنوانات کے تحت تقسیم کر رکھا ہے۔ بلینک ورس کی عمومی تعریف یہ ہے کہ یہ وہ نظم ہے جس میں قافیے کی پابندی نہ ہو مگر وزن ہو۔ ہم اس میں مزید فرق کرتے ہیں اور اس نظم کو جس میں ہر سطر کا وزن برابر ہو، معریٰ کہتے ہیں جبکہ اس نظم کو جس میں ہر سطر کا وزن برابر نہ ہو، آزاد قرار دیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی عروض (prosody)، یا زیادہ وسیع اصطلاح میں یورپی عروض، شاعر کو عموماً یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ مصرعوں کی لمبائی اور بحر وغیرہ میں ضرورتِ شعری کے تحت مناسب تصرف کر سکتا ہے۔ بلکہ ہمارا تو یہاں تک خیال ہے کہ یورپ کے ادبِ عالیہ میں شاید ہی کوئی نظم ہو جس میں کسی بحر کو مکمل طور پر اور آخر تک اس کی اصل حالت میں نبھایا گیا ہو۔ اس کے برعکس ہمارے کلاسیکی عروض میں یہ سہولت شاعر کو کبھی حاصل نہیں رہی۔ پھر بیسویں صدی میں مصرعوں کی لمبائی طے کرنے کی حد تک شاعر کو آزاد کر دیا گیا۔ سو کلاسیکی عروض کے تحت لکھی جانے والی نظم تو معریٰ کہلائی جبکہ جدید رجحانات کی تابع نظم کو آزاد کا نام دیا گیا۔
بہرحال، فری ورس کے بالمقابل آزاد نظم کی ترکیب گھڑ کے ہم جس بری طرح پھنسے ہیں اس کا اندازہ جلد یا بدیر ہمیں ہو جائے گا۔ نام نہاد عالمی ادب سے فری ورس کی جو مثالیں پیش کی جاتی ہیں وہ اصلاً نثری نظم کی ہوتی ہیں اور ان کا موازنہ اصطلاح سے متعلق اسی غلط فہمی کے باعث ہماری آزاد نظم سے کیا جاتا ہے۔ پھر اردو اور اہلِ اردو کی ہیچ مائیگی، تنگ دامانی اور بدویت کو وہ کوسنے دیے جاتے ہیں کہ الامان!
اس قیامت کا مختصر احوال ذیل کے نقشے سے معلوم ہو گا:
free verse/vers libre = نثری نظم = وہ نظم جس میں وزن اور قافیے دونوں کی پابندی نہ ہو
blank verse = آزاد نظم/معریٰ نظم = وہ نظم جس میں قافیے کی پابندی نہ ہو

راحیل بھیا اپنی تحریر کے آغاز میں آپ نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ہمارے ہاں بلینک ورس اور فری ورس کا ترجمہ صحیح نہیں ہوا ہے ۔ چلیے ہم یہ بحث ہمارے پاس وقت اور انٹرنیٹ کی دستیابی سے مشروط کر تے ہیں۔ ہمیں تو یہ خوشی ہے کہ ہماری نظم کے طفیل آپ کو کچھ پڑھ کر علم میں اضافے کا موقع ملا اور بلآ خر آپ نے نثری نظم کے وجود کو تسلیم تو کیا۔ ابتدا ہی سہی۔۔۔بری نہیں ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہ
کیا ہی خوب اجاگر کیا ہے "خالی پن سے بھری دنیا " کو
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت دعائیں
 
Top