بلغ العلیٰ بکمالہ : کشف الدجیٰ بجمالہ

بلغ العلیٰ بکمالہ : کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ : صلو علیہ واٰلہ
میں اس قابل کہاں کہ حضورﷺ کی مدحت لکھ سکوں۔۔۔ میرے گناہوں کا بار اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔۔۔گویا ۔۔۔۔ ایک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہ ﷺ
مگر پھر بھی اس بڑھیا کی طرح جو پلے کچھ نا ہوتے ہوئے بھی حضرت یوسف ؑ کے خریداروں میں اپنا نام لکھوانا چاہتی تھی، میں بھی کم از کم مدحت رسول ﷺ لکھنے والوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتا ہوں ۔۔۔ اچھا ہوں یا برا۔۔۔۔ کہ وہاں معیار نئیں بلکہ اخلاص دیکھا جاتا۔۔۔۔ وہاں بڑے بڑے شاہ پچھلی صفوں میں بیٹھتے ہیں اور غلام اگلی صفوں میں جگہ پاتے ہیں۔۔۔۔ کیا ہوا میں اگر قلم کار نئیں تو ۔۔۔۔ غلام تو ہوں ۔۔۔۔ اس لیے جو چند الفاظ لکھ سکتا ہوں وہ تو ضرور لکھوں گا۔۔۔۔مگر پہلے قلم کو آنسوؤں کا غسل دوں گا۔۔۔ پھر قرطاس کو بصد احترام چوموں گا۔۔۔ پھر شائد چند حرفوں کا نذررانہ پیش کر سکوں گا۔۔۔۔
حضور ﷺ کی ذات اقدس نا صرف انسانوں کیلیے بلکہ حیوانوں کیلیے ایک رحمت کا استعارہ تھی، ہے اور رہے گی۔۔۔ آپ ﷺ کی پر رحمت آمد سے قبل انسان درجہ حیوانیت کو پہنچ چکے تھے۔ آپ ؐ نے مقام بشریت کو ایک بلندی اور رفعت بخشی۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام کے نیرتاباں کے طلوع ہونے سے پہلے پورا عرب معاشرہ جہالت میں ڈوبا ہوا تھا ۔ وہ لوگ شراب نوشی، جواء،قمار بازی،لوٹ کھسوٹ اور زنا کاری میں اس قدر ملوث ہو گئے تھے کہ ان اعمال کو گناہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں قتل کے بدلے نسل در نسل چلتے،وہ عریاں ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے، کعبہ کے صحن میں بتوں کی حکمرانی تھی، بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کردیا جاتا۔ اور ان کے ہاں معمولی معمولی باتوں پر جھگڑے شروع ہوجاتے تھے ۔۔۔ لہٰذہ شاعر کو کہنا پڑا ۔۔۔۔
کہیں پانی پینے پلانے پر جھگڑا۔۔۔
کہیں گھوڑا آگے دوڑانے پر جھگڑا
قرآن نے اس صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
ظہر الفساد فی البر والبحر۔
اہل عرب ہی کیا پوری انسانیت جہالت و گمراہی کے بھیانک گھڑے میں دم توڑ رہی تھی، آدمیت سسک رہی تھی کہ
یکایک ہوئی غیرت حق کو حرکت
بڑھا جانب بو قبیس ابر رحمت
ادا خاک بطحا نے کی وہ ودیعت
چلے آئے تھے جس کی دینے شہادت
ہوئی پہلوئے آمنہؑ سے ہویدا
دعائے خلیلؑ و نوید مسیحا ؑ
حضورﷺ نے آکر جب قولو لاالہ الاللہ کی آواز بلند کی تو پورا مکہ غصہ سے پھٹ پڑا۔ کیونکہ ان کو گمراہ کہا گیا تھا، ان کے باپ دادا کے دین پہ چوٹ کی گئی تھی۔۔۔ گویا یہ آپکی آواز نئیں تھی بلکہ بجلی کا کڑکا تھا جس نے مکہ کی فضا میں تلاطم بپا کر دیا۔ چنانچہ حالیؔ کو کہنا پڑا
؎ یہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
حضورﷺ نے معاشرتی برائیوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور عرب معاشرے کا معاشرتی، اقتصادی اور سماجی ڈھانچہ بدل کر رکھ دیا۔ لوگ قبائل میں بٹے ہوئے تھے آپﷺ نے انکو مرکزیت عطا کی۔ دلوں پر حکمرانی کے ذریعے معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کر دیا۔
عرب کے وہ بدو جو اونٹ بکریاں چرایا کرتے تھے، وہ حضورﷺ کی تعلیمات لے کی شمع سے دنیا کے کونے کونے کو منور کرتے چلے گئے۔آقاﷺ کی صحبت نے انکو راہزن سے رہبر بنا دیا، قران کی تعلیمات کے ذریعے ان کو زمانے کی بادشاہی کے گر سکھلادیے گئے۔۔۔ اسی لیے تو کسی کہنے والے نے کیا خوب کہاکہ۔۔۔۔۔
اسلام کا زمانے میں سکہ بٹھا دیا
اپنی مثال آپ ہیں یاران مصطفیٰﷺ
آنحضورﷺ نے یہ انقلاب 23 سال کے عرصے میں برپا کیا۔ ان میں سے 13 سال وہ ہیں جن میں آپﷺ کو کھل کر دعوت و تبلیغ کا موقعہ ملا نہ ہی آپﷺ اپنے احکامات پر عمل درآمد کروا سکتے تھے۔ بلکہ آپﷺ کو شاعر اور کاہن کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر یہ آپ ﷺ کی ذات کی مضبوطی، کردار کی بلندی اور عمل کی پختگی تھی کہ آپ ﷺنے چھٹی صدی عیسوی میں بغیر کسی بڑے جانی نقصان انقلاب بپا کر دیا ۔۔ اور جو جانی نقصان ہوا وہ بھی بہت قلیل تھا۔۔ جبکہ اس کے برعکس ہم تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انقلاب فرانس میں 66 لاکھ افراد مارے گئے۔ اور اسی طرح روسی انقلاب نے 33 لاکھ افراد کی جانیں نگل لیں۔
شائد اسی کاپلٹ جو کہ محمد عربیﷺ کے زیر سایہ روپذیر ہوئی نے حالیؔ کہ یہ کہنے پہ مجبور کر دیا کہ
؎عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی اک آن کی آن میں اس کی کایا
آخر میں ٹالسٹائی کا بیان نقل کرنا چاہوں گا کہ
"محمد(ﷺ) سے پہلے دنیا میں گمراہی پھیلی ہوئی تھی ، وہ اس تاریکی میں نور بن کر چمکے۔ ہم یقین کرنے پہ مجبور ہیں کہ محمد ﷺ کی تبلیغ و ہدایت سچی ہے"
 
بلغ العلیٰ بکمالہ : کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ : صلو علیہ واٰلہ
میں اس قابل کہاں کہ حضورﷺ کی مدحت لکھ سکوں۔۔۔ میرے گناہوں کا بار اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔۔۔گویا ۔۔۔۔ ایک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہ ﷺ
مگر پھر بھی اس بڑھیا کی طرح جو پلے کچھ نا ہوتے ہوئے بھی حضرت یوسف ؑ کے خریداروں میں اپنا نام لکھوانا چاہتی تھی، میں بھی کم از کم مدحت رسول ﷺ لکھنے والوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتا ہوں ۔۔۔ اچھا ہوں یا برا۔۔۔۔ کہ وہاں معیار نئیں بلکہ اخلاص دیکھا جاتا۔۔۔۔ وہاں بڑے بڑے شاہ پچھلی صفوں میں بیٹھتے ہیں اور غلام اگلی صفوں میں جگہ پاتے ہیں۔۔۔۔ کیا ہوا میں اگر قلم کار نئیں تو ۔۔۔۔ غلام تو ہوں ۔۔۔۔ اس لیے جو چند الفاظ لکھ سکتا ہوں وہ تو ضرور لکھوں گا۔۔۔۔مگر پہلے قلم کو آنسوؤں کا غسل دوں گا۔۔۔ پھر قرطاس کو بصد احترام چوموں گا۔۔۔ پھر شائد چند حرفوں کا نذررانہ پیش کر سکوں گا۔۔۔۔
حضور ﷺ کی ذات اقدس نا صرف انسانوں کیلیے بلکہ حیوانوں کیلیے ایک رحمت کا استعارہ تھی، ہے اور رہے گی۔۔۔ آپ ﷺ کی پر رحمت آمد سے قبل انسان درجہ حیوانیت کو پہنچ چکے تھے۔ آپ ؐ نے مقام بشریت کو ایک بلندی اور رفعت بخشی۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام کے نیرتاباں کے طلوع ہونے سے پہلے پورا عرب معاشرہ جہالت میں ڈوبا ہوا تھا ۔ وہ لوگ شراب نوشی، جواء،قمار بازی،لوٹ کھسوٹ اور زنا کاری میں اس قدر ملوث ہو گئے تھے کہ ان اعمال کو گناہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں قتل کے بدلے نسل در نسل چلتے،وہ عریاں ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے، کعبہ کے صحن میں بتوں کی حکمرانی تھی، بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کردیا جاتا۔ اور ان کے ہاں معمولی معمولی باتوں پر جھگڑے شروع ہوجاتے تھے ۔۔۔ لہٰذہ شاعر کو کہنا پڑا ۔۔۔۔
کہیں پانی پینے پلانے پر جھگڑا۔۔۔
کہیں گھوڑا آگے دوڑانے پر جھگڑا
قرآن نے اس صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
ظہر الفساد فی البر والبحر۔
اہل عرب ہی کیا پوری انسانیت جہالت و گمراہی کے بھیانک گھڑے میں دم توڑ رہی تھی، آدمیت سسک رہی تھی کہ
یکایک ہوئی غیرت حق کو حرکت
بڑھا جانب بو قبیس ابر رحمت
ادا خاک بطحا نے کی وہ ودیعت
چلے آئے تھے جس کی دینے شہادت
ہوئی پہلوئے آمنہؑ سے ہویدا
دعائے خلیلؑ و نوید مسیحا ؑ
حضورﷺ نے آکر جب قولو لاالہ الاللہ کی آواز بلند کی تو پورا مکہ غصہ سے پھٹ پڑا۔ کیونکہ ان کو گمراہ کہا گیا تھا، ان کے باپ دادا کے دین پہ چوٹ کی گئی تھی۔۔۔ گویا یہ آپکی آواز نئیں تھی بلکہ بجلی کا کڑکا تھا جس نے مکہ کی فضا میں تلاطم بپا کر دیا۔ چنانچہ حالیؔ کو کہنا پڑا
؎ یہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
حضورﷺ نے معاشرتی برائیوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور عرب معاشرے کا معاشرتی، اقتصادی اور سماجی ڈھانچہ بدل کر رکھ دیا۔ لوگ قبائل میں بٹے ہوئے تھے آپﷺ نے انکو مرکزیت عطا کی۔ دلوں پر حکمرانی کے ذریعے معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کر دیا۔
عرب کے وہ بدو جو اونٹ بکریاں چرایا کرتے تھے، وہ حضورﷺ کی تعلیمات لے کی شمع سے دنیا کے کونے کونے کو منور کرتے چلے گئے۔آقاﷺ کی صحبت نے انکو راہزن سے رہبر بنا دیا، قران کی تعلیمات کے ذریعے ان کو زمانے کی بادشاہی کے گر سکھلادیے گئے۔۔۔ اسی لیے تو کسی کہنے والے نے کیا خوب کہاکہ۔۔۔۔۔
اسلام کا زمانے میں سکہ بٹھا دیا
اپنی مثال آپ ہیں یاران مصطفیٰﷺ
آنحضورﷺ نے یہ انقلاب 23 سال کے عرصے میں برپا کیا۔ ان میں سے 13 سال وہ ہیں جن میں آپﷺ کو کھل کر دعوت و تبلیغ کا موقعہ ملا نہ ہی آپﷺ اپنے احکامات پر عمل درآمد کروا سکتے تھے۔ بلکہ آپﷺ کو شاعر اور کاہن کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر یہ آپ ﷺ کی ذات کی مضبوطی، کردار کی بلندی اور عمل کی پختگی تھی کہ آپ ﷺنے چھٹی صدی عیسوی میں بغیر کسی بڑے جانی نقصان انقلاب بپا کر دیا ۔۔ اور جو جانی نقصان ہوا وہ بھی بہت قلیل تھا۔۔ جبکہ اس کے برعکس ہم تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انقلاب فرانس میں 66 لاکھ افراد مارے گئے۔ اور اسی طرح روسی انقلاب نے 33 لاکھ افراد کی جانیں نگل لیں۔
شائد اسی کاپلٹ جو کہ محمد عربیﷺ کے زیر سایہ روپذیر ہوئی نے حالیؔ کہ یہ کہنے پہ مجبور کر دیا کہ
؎عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی اک آن کی آن میں اس کی کایا
آخر میں ٹالسٹائی کا بیان نقل کرنا چاہوں گا کہ
"محمد(ﷺ) سے پہلے دنیا میں گمراہی پھیلی ہوئی تھی ، وہ اس تاریکی میں نور بن کر چمکے۔ ہم یقین کرنے پہ مجبور ہیں کہ محمد ﷺ کی تبلیغ و ہدایت سچی ہے"
ما شا اللہ :)
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top