سودا بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا ۔ سودا

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
ہم نے اُسے ہر خارِ بیابان میں دیکھا

روشن ہے وہ ہر ایک ستارے میں زلیخا
جس نور کو تُو نے مہِ کنعان میں دیکھا

برہم کرے جمعیّتِ کونین جو پل میں
لٹکا وہ تری زلفِ پریشان میں دیکھا

واعظ تو سنی بولے ہے جس روز کی باتیں
اُس روز کو ہم نے شبِ ہجران میں دیکھا

اے زخمِ جگر سودۂ الماس سے خُو کر
کتنا وہ مزا تھا کہ نمک دان میں دیکھا

سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ *
کیا جانیے تُو نے اسے کس آن میں دیکھا

*متغیرات: سودا جو ترا حال ہے ایسا تو نہیں وہ

(مرزا رفیع سودا)
 

hani

محفلین
روشن ہے وہ ہر ایک ستارے میں زلیخا
جس نور کو تُو نے مہِ کنعان میں دیکھا

واہ واہ، کیا بات ھے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ وارث صاحب! لیکن آپ کو اس غزل سے پہلے آشنائی تھی تو آپ نے کیوں فرمائش نہیں کی۔ میں سخت ناراض ہوں۔ ;)

اور مجھے واقعی حیرت ہے کہ یہ غزل آپ کیلیے "نئی" ہے، جب کہ اس کے پہلے تین اشعار اور مقطع تو زبان زد خاص و عام ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ دیکھیئے آپ کے شکریے کی مہر ;)

گو میں نے اس شعر کو اس طور پڑھا اور لکھا یقیناً آپ کا شعر ہی صحیح ہوگا :)

جی واقعی میں نے ثبت مہر کو دیکھا لیکن اس غزل کا صرف مقطع ہی کچھ مانوس لگ رہا تھا لیکن باقی کے اشعار میں ایک بھی نہیں سنا ہوا ۔ ویسے چیٹ کا کبھی کبھار کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اس لئے کبھی مسنجر پر بھی نظر آجایا کیجیے۔ :)
 
Top