بلا عنوان

فرحت کیانی

لائبریرین
آج ایسے ہی بیٹھے بیٹھے ایک نظم یاد آ گئی جو 2006 کے زلزلے کے بعد آنے والی عید پر ایک دوست نے بھیجی تھی۔

ّعید آئی ہے بابا کفن بھیج دو
میرا، منی کا، اماں کا، بھیا کا
اور پیاری دادی کا بابا کفن بھیج دو۔
اب کے کمبل بچھونے نہیں چاہئیں
مجھ کو اپنے کھلونے نہیں چاہئیں
اپنی منی کو گڑیا نہیں چاہئے
کوئی خوابوں کی پڑیا نہیں چاہئے
کوئی پتلون، شرٹ اور گھڑی بھی نہیں
دادی ماں کے لئے چھڑی بھی نہیں

میرا بستہ نہ جانے کہاں کھو گیا
میرے کپڑے نہ جانے کہاں دفن ہیں
ساری چڑیاں نہ جانے کہاں اڑ گئیں
جانے سب آشیانے کہاں دفن ہیں۔
دادی ماں کے ہاتھوں میں تسبیح بھی تھی
ٕجانے اب اس کے دانے کہاں دفن ہیں۔
جو میرے پیارے بھیا کی آنکھوں میں تھے
خواہشوں کے خزانے کہاں دفن ہیں۔
خیر اب ڈھونڈنا کیا!!!
کفن بھیج دو۔۔
عید آئی ہے بابا!!!!!
 

شمشاد

لائبریرین
بہت ہی دل کو چھونے والی نظم ہے یہ۔ میں نے بھی پڑھی تھی تب بھی میری آنکھوں میں آنسو آئے اور آج پھر آپ نے میری آنکھوں میں آنسو بھر دیئے۔
 
Top