آتش بلا اپنے لیے دانستہ ناداں مول لیتے ہیں - خواجہ حیدر علی آتش

حسان خان

لائبریرین
بلا اپنے لیے دانستہ ناداں مول لیتے ہیں
عبث جی بیچ کر الفت کو انساں مول لیتے ہیں
نہ پوچھ احوال بے درد اپنے بیمارِ محبت کا
زمیں اُس کے لیے اب تو عزیزاں مول لیتے ہیں
میں اُس گلشن کا بلبل ہوں بہار آنے نہیں پاتی
کہ صیاد آن کر میرا گلستاں مول لیتے ہیں
مگر جانا نہیں شاید کہ یاں سے اہلِ عالم کو
یہ دو دن کے لیے کیا قصر و ایواں مول لیتے ہیں
کیا گو نقشِ پائے مور ہم کو خاکساری نے
جو اب بھی چاہیں تو تختِ سلیماں مول لیتے ہیں
عزیزِ خلق اتنا تو کیا ہے مجھ کو داغوں نے
کہ مردم جان کر سروِ چراغاں مول لیتے ہیں
ہمارا شعر ہر اک عالمِ تصویر رکھتا ہے
مرقع جان کر ذی فہم دیواں مول لیتے ہیں
ترے ابرو کے سودائی نہایت تنگ ہیں قاتل
گلے کے کاٹنے کو تیغِ عریاں مول لیتے ہیں
یہ آتش نالۂ عشاق معشوقوں کو بھایا ہے
کہ صیادوں سے مرغانِ خوش الحاں مول لیتے ہیں
(خواجہ حیدر علی آتش)
 

طارق شاہ

محفلین
بلا اپنے لیے دانستہ ناداں مول لیتے ہیں
عبث جی بیچ کر الفت کو انساں مول لیتے ہیں
ہمارا شعر ہر اک عالمِ تصویر رکھتا ہے
مرقع جان کر ذی فہم دیواں مول لیتے ہیں
بہت ہی خوب !​
تشکّر شیئر کرنے پر​
بہت خوش رہیں :)
 

علی فاروقی

محفلین
مگر جانا نہیں شاید کہ یاں سے اہلِ عالم کو
یہ دو دن کے لیے کیا قصر و ایواں مول لیتے ہیں
بہت خوب جناب، شکریہ شئیر کرنے کا۔
 
Top