بلاعنوان (عقیل ملک)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بلاعنوان​
(عقیل ملک)​
حرفِ ناروا کا شور کانوں پر اترتا ہے​
تو دل کے لوتھڑے سے​
خون رِستے رِستے پلکوں پر ٹھہر تا ہے​
گلیمِ دردگدلائے ہوئے موسم کی انگلی تھام کر​
ریڑھی لگانے والے بوڑھے کی​
اناری بیٹیوں کے جسم پر ترچھی لکیریں سی بناتا ہے​
تو آنکھیں درد چنتی ہیں!​
روپہلی صبح کی معصوم کرنوں کی کہانی میں​
وہ ریڑھی بان جب بھوکے بھکاری کی​
حسیں بیٹی کی آنکھوں پر فدا درویش کے قصے سناتا ہے​
تو اس کے چہرے پر تہذیب کے سارے گذشتہ نقش ابرتے ہیں​
(کہانی آگے چلتی ہے)​
پتھارے دارکی الہڑاناری بیٹیاں​
چولھے پہ رکھی دیگچی میں خواب کا تڑکا لگاتی ہیں​
شکم کی آگ خوابوں کو ابالی دینے لگتی ہے تو خوشبو​
طاقچوں کو کھول کر​
شہرِ تماشا گاہِ الفت میں دوانہ وار چلتی ہے​
اسی شہرِ تماشاہ گاہِ الفت میں​
قدم بھر فاصلے پر آڑھتی بیٹھے ہوئے ہیں​
جو پہلے حیض کے بعد اٹھنے والی جسم کی خوشبو کا کاروبار کرتے ہیں​
(بیکاری کی کہانی ختم ہوتی ہے)​
دریچوں سے ہمکتی بوڑھے ریڑھی بان کی سب بیٹیوں کے جسم کی خشبو کے پیچھے آڑھتی اک جال بُنتے ہیں​
برش کا سٹروک الجھی ہوئی بے انت لہروں سے​
شہابی آتشیں سے رنگ جب ترتیب دیتا ہے​
تو پھر اٹھے ہوئے کالر میں تجریدی ہیولا​
تاجری مسکان گاہک پر چھاور کرکے کہتا ہے​
"وہ ریڑھی بان اک ایسا جہازی ہے کہ جس کی بیٹیوں کے جسم سے کپڑوں کا یہ میلا برادہ٭ شاخچوں کے بورکے مانند گرتا ہے۔ میاں!اس بورکی مہکار شب ذادوں کا پہلا سانس بنتی ہے۔ وہہہہ پشمینہ سی لڑکی منجھلی اکتوبری شب میں تمھارے دام پورے کرکےچھوڑے گی"​
ہوس،قِتالہء شب، چال چلتی ہے​
اسی آڑھت پہ بیٹھے آڑھتی کی پہلی بیٹی کے بدن کی بو دریچوں سے ہمکتی ہے​
تو اس کے جسم کی خوشبو کی پیچھے آڑھتی اک جال بنتے ہیں​
(نا تمام)​
(عقیل ملک)​
 
Top