محسن نقوی بعد از خدا۔۔۔ ! (نعت) - محسن نقوی

حسان خان

لائبریرین
اے شہرِ علم و عالمِ اسرارِ خشک و تر
تو بادشاہِ دیں ہے۔۔ تو سلطانِ بحر و بر
ادراک و آگہی کی ضمانت ترا کرم۔۔!
ایقان و اعتقاد کا حاصل تری نظر
تیرے حروف نطقِ الٰہی کا معجزہ!
تیری حدیث سچ سے زیادہ ہے معتبر
قرآں تری کتاب، شریعت ترا لباس
تیری زرہ نماز ہے، روزہ تری سپر
یہ کہکشاں ہے تیرے محلے کا راستہ!
تاروں کی روشنی ہے تری خاکِ رہگذر
میری نظر میں خلد سے بڑھ کر تری گلی
رفعت میں مثلِ عرشِ بریں تیرے بام و در
جبریل تیرے در کے نگہباں کا ہم مزاج
باقی ملائکہ تیری گلیوں کے کوزہ گر
محفوظ جس میں ہو تیرے نقشِ قدم کا عکس
کیوں آسماں کا سر نہ جھکے ایسی خاک پر؟
کیا شئے ہے برق، تابشِ جَستِ براق ہے
معراج کیا ہے ۔۔ صرف تیری سرحدِ سفر
موجِ صبا کو ہے تری خوشبو کی جستجو
جیسے کسی کے در کی بھکارن ہو دربدر
قامت ترا ہے روزِ قیامت کا آسرا
خورشیدِ حشر، ایک نگیں تیرے تاج پر
ہر رات تیرے گیسوئے عنبر فشاں کی یاد
تیرے لبوں کی آئینہ بردار ہے سحر!
آیات تیرے حسنِ خد و خال کی مثال
واللیل تیری زلف ہے رخسار والقمر
والعصر زاویہ ہے تیری چشمِ ناز کا
والشمس تیری گرمئ انفاس کا شرر
یٰسین تیرے نام پہ الہام کا غلاف
طٰہ ترا لقب ہے، شفاعت ترا ہنر
کہسار پاش پاش ہیں ابرو کی ضرب سے
وو لخت چاند ہے ترے ناخن کی نوک پر
دریا ترے کرم کی طلب میں ہیں جاں بہ لب
صحرا ترے خرام کی خاطر کماں بہ سر!
تیرا مزاج بخششِ پیہم کی سلسبیل
تیری عطا خزانۂ رحمت ہے سر بہ سر
تیرے فقیر اب بھی سلاطینِ کج کلاہ
تیرے غلام اب بھی زمانے کے چارہ گر
یہ بھی نہیں کہ میرا مرض لاعلاج ہو!
یہ بھی نہیں کہ تجھ کو نہیں ہے مری خبر!!
ہاں پھر سے ایک جنبشِ ابرو کی بھیک دے
ہاں پھر سے اک نگاہِ کرم میرے حال پر
سایہ عطا ہو گنبدِ خضریٰ کا ایک بار
جھلسا نہ دے غموں کی کڑی دھوپ کا سفر
تیرے سوا کوئی بھی نہیں ہے جہاں پناہ!
ہو جس کا نام باعثِ تسکیں پئے جگر
محسن، کہ تیری راہگذر کا فقیر ہے!
اُس پر کرم۔۔ دیارِ نبوت کے تاجور
دے رزقِ نطق مجھ کو بنامِ علی ولی
یا بہرِ فاطمہ وہ ترا پارۂ جگر
حسنین کے طفیل عطا کر مجھے بہشت
میری دعا کے رخ پہ چھڑک شبنمِ اثر
تیرے سوا دعا کے لیے کس کا نام لوں؟
"بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"
(محسن نقوی)
 
Top