غزل
بظاہر یہ جو تصویر جہاں معلوم ہوتی ہے
مرے اعمال ہی کی ترجماں معلوم ہوتی ہے
سنائی ہے جو رودادِ قفس تو نے مجھے ہمدم
ارے یہ تو مری ہی داستاں معلوم ہوتی ہے
قدم اٹھنے لگے ہیں خود بخود اب جانبِ مقتل
محبت آج کچھ کچھ مہربان معلوم ہوتی ہے
وصالِ یار کا پھر سے یہ کس نے تذکرہ چھیڑا
شہادت کی تمنا پھر جواں معلوم ہوتی ہے
وضو کرلو لہو سے گر نمازِ عشق پڑھنی ہے
گنہگارو! مجاہد کی اذاں معلوم ہوتی ہے
پس دیوارِ زنداں درد سے کس نے پکارا ہے؟
کسی بسمل کی یہ شیریں زباں معلوم ہوتی ہے
بچھڑنا قافلے سے تو ہلاکت ہے مسافر کی
اٹھو انورؔ صدائے کارواں معلوم ہوتی ہے ۔
شاعر: پروفیسر انور جمیل
گورنمنٹ ڈگری کالج چشتیاں
بظاہر یہ جو تصویر جہاں معلوم ہوتی ہے
مرے اعمال ہی کی ترجماں معلوم ہوتی ہے
سنائی ہے جو رودادِ قفس تو نے مجھے ہمدم
ارے یہ تو مری ہی داستاں معلوم ہوتی ہے
قدم اٹھنے لگے ہیں خود بخود اب جانبِ مقتل
محبت آج کچھ کچھ مہربان معلوم ہوتی ہے
وصالِ یار کا پھر سے یہ کس نے تذکرہ چھیڑا
شہادت کی تمنا پھر جواں معلوم ہوتی ہے
وضو کرلو لہو سے گر نمازِ عشق پڑھنی ہے
گنہگارو! مجاہد کی اذاں معلوم ہوتی ہے
پس دیوارِ زنداں درد سے کس نے پکارا ہے؟
کسی بسمل کی یہ شیریں زباں معلوم ہوتی ہے
بچھڑنا قافلے سے تو ہلاکت ہے مسافر کی
اٹھو انورؔ صدائے کارواں معلوم ہوتی ہے ۔
شاعر: پروفیسر انور جمیل
گورنمنٹ ڈگری کالج چشتیاں