سودا بس ہو تو رکھوں آنکھوں میں اُس آفتِ جاں کو ۔ سودا

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

بس ہو تو رکھوں آنکھوں میں اُس آفتِ جاں کو

اور دیکھنے دوں میں نہ زمیں کو نہ زماں کو

جب عزم کروں گھر سے کوئے دوست کا یارو

دشمن ہے مرا وہ جو کہے یہ کہ "کہاں کو؟"

موجب مری رنجش کا جو پوچھے ہے تو یہ جان

مُوندوں گا نہ پھر کھول کے جوں غنچہ دہاں کو

ابرو نے، مژہ نے، نگہِ یار نے یارو

بے رتبہ کیا تیغ کو، خنجر کو، سناں کو

اسرارِ خرابات سے واقف ہو جو زاہد

کعبے سے نہ کم سمجھے درِ پیرِ مغاں کو

یہ رسم نہیں تازہ کچھ اے شیخ جہاں میں

جاگہ حرمِ دل میں جو مَیں دی ہے بُتاں کو

ناصح یہ مجھے راست کہے تھا کہ بجز داغ

کیا لیوے گا دل دے کے تُو اِن لالہ رُخاں کو

دل کس کے دمِ تیغ کا پیاسا ہے کہ سودا

بسمل کی طرح تڑپے ہے دیکھ آبِ رواں کو

(مرزا رفیع سودا)
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ واہ
مطلع پڑھ کر جھوم اٹھا۔ سبحان اللہ۔ ہمیشہ کی طرح خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت شکریہ قبلہ!
 
Top